انڈونیشیا کا ماہی گیر قبیلہ اپنی شناخت کی تلاش میں
18 اگست 2024
صدیوں سے ماہی گیری سے وابستہ باجاؤ قبائل کے افراد ماحولیاتی تبدیلیوں اور ضرورت سے زیادہ ماہی گیری کے باعث خشکی پر منتقل ہورہے ہیں جہاں انہیں نئے اقتصادی اور شناخت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ ہے۔
اشتہار
انڈونیشیا، ملائیشیا اور فلپائن کے سمندروں میں رہنے والے باجاؤ قبائل کے افراد چھوٹی عمر سے غوطہ خوری سیکھتے ہیں۔ انہیں خانہ بدوش بھی کہا جاتا ہے۔ نسل در نسل غوطہ خوری کی وجہ سے ان میں ایسی جسمانی خصوصیات پیدا ہوچکی ہوتی ہیں جو انہیں زیادہ دیر تک پانی کے اندر رہنے کے قابل بناتی ہیں۔ تاہم، انڈونیشیا کے پلاؤ پاپان جزیرے پر واقع گاؤں میں آباد سینکڑوں باجاؤ افراد کا روایتی طرز زندگی اب ختم ہو چکا ہے۔
39 سالہ صوفیان صبی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''کبھی کبھی ہمیں ماہی گیری سے کچھ آمدنی ہو جاتی تھی۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہونے کے بعد ہم نے اپنا ذریعہ معاش تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم اب کاشتکاری کرتے ہیں، جس سے میری آمدنی بہتر ہوگئی ہے۔‘‘
صوفیان زیرِ آب سانس روکنے کے ماہر ہیں اور وہ 10 سے 15 میٹر (33 سے 50 فٹ) تک گہرائی تک غوطہ لگا سکتے ہیں۔ اس گہرائی میں وہ سمندری جانور آکٹوپس تلاش کرتے ہیں جنہیں فروخت کرکے وہ 5 لاکھ تک کما سکتے ہیں۔
تھائی لینڈ کی چولالونگ کورن یونیورسٹی کے محقق وینگکی آرینڈو کہتے ہیں کہ تجارتی حد سے زیادہ ماہی گیری اور بڑھتے ہوئے سمندری درجہ حرارت نے مچھلی کے شکار کو شدید متاثر کیا ہے۔
پلاسٹک کا کچرا جمع کر کے کتابیں حاصل کریں
انڈونیشی جزیرے جاوا میں ایک موبائل لائبریری کا منفرد پروگرام ہے۔ اس پروگرام کے تحت بچے پلاسٹک کا کوڑا لاتے ہیں لائبریری سے کتابیں حاصل کرتے ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد ماحول دوستی کی ترغیب اور آگہی کو فروغ دینا ہے۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
چھوٹی پیش رفت، بڑے اثرات
پورے ہفتے خاتون رادین رورو ہینڈراٹی اپنے تین پہیوں والی گاڑی پر کتابیں لاد کر ایک گاؤں منٹانگ جاتی ہیں۔ وہ گاؤں کے بچوں سے پلاسٹک کا کچرا وصول کرتی ہیں اور اس کے بدلے میں انہیں کتابیں دیتی ہیں۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی پیش رفت ہے لیکن اس کا اثر بہت وسیع ہے کیونکہ بچوں کو ماحول کے بارے میں معلومات میسر ہو رہی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ انڈونیشیا میں پلاسٹک کا کوڑا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
پلاسٹک ایکسچینج
بہت سارے بچے ان کے انتطار میں بھی ہوتے ہیں۔ یہ قطار میں کھڑے ہو کر کتابیں وصول کرتے ہیں۔ بچے انہیں پلاسٹک کے کپس، تھیلے اور دوسرا کچرا جمع کرواتے ہیں۔ رادین اس کوڑے کو اپنے ٹرائی وہیلر پر رکھتی جاتی ہیں۔ وہ اس کوڑے کو واپس لا کر اپنے ساتھیوں کو دیتی ہیں، جو انہیں علیحدہ کر کے ری سائیکل یا فروخت کر دیتے ہیں۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
پلاسٹک کا کچرا
رادین ایک ہفتے میں قریب ایک سو کلوگرام کچرا جمع کر لیتی ہیں۔ ان کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے اور زمین کے بچانے کے لیے ایسا کوڑا جمع کرنا ضروری ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر ٹریش لائبریری کے تحت جمع ہونے والے کاٹھ کباڑ کا وزن بھی کرتی ہیں۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
مل جُل کر تلاش کا سلسلہ
رادین کے مطابق بچے ان کی چھوٹی سی موبائل لائبریری سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں۔ انہوں نے بچوں پر واضح کیا کہ جب کوڑا زیادہ ہو گا تب گندگی پھیلے گی اور ماحول صحت مند نہیں رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اسکول سے واپس لوٹ کر بھی یہ بچے اکھٹے بیٹھ کر ایک دوسرے کی کتابوں کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
بچوں کی کتابیں، ویڈیو گیمز نہیں
رادین رورو ہینڈراٹی بچوں کو مطالعے کی جانب راغب کر کے بہت خوش ہیں۔ وہ اِن بچوں کے کتب بینی کے شوق کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں۔ اب اس شروعات پر گاؤں کے بچے ویڈیو گیمز کھیلنے پر کم وقت صرف کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ پڑھنے کے کلچر کو فروغ دیا جائے کیونکہ آن لائن رویوں نے دنیا کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کووڈ انیس کی وبا کے دوران بچے ویڈیو گیمز کی جانب زیادہ مائل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
خواندگی بڑھانے کا مشن
کورونا وبا کے دوران انڈونیشیا میں بیشتر اسکول بند رہے اور اس کی شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ رادین اپنے ملک میں پڑھنے کو پھر سے رواج دینے کی کوشش میں ہیں۔ وہ روزانہ ہزاروں کتابیں اپنی تین پہیوں والی گاڑی پر لاد کر تقسیم کرتی ہیں۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
6 تصاویر1 | 6
ماحولیاتی تبدیلی کے باعث مچھلیوں کی نقل و حرکت اور تولیدی عمل تبدیل ہو رہا ہے۔ انڈونیشیا میں ماہی گیری کے لیے موافق 11 میں سے نصف سے زائد علاقوں میں مچھلیوں کی افزائش بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔
پلاؤ پاپان جزیرے پر رہائش پذیر ڈیولن امبوٹانگ نے بتایا کہ اس جزیرے کو گھروں کی تعمیر کے لیے موزوں پاکر ان لوگوں نے تین نسل قبل یہاں آباد ہونا شروع کیا تھا لیکن ان کے بقول خشکی پر رہنے کے مسائل کچھ مختلف ہیں۔
صوفیان سبی نے بتایا کہ لوگوں کے پاس کوئی اضافی آمدنی نہیں ہے۔ حکومت سب کچھ کنٹرول کرتی ہے جس پر ان کے اور مقامی لوگوں کے درمیان کئی مرتبہ تکرار ہوئی ہے۔
اس گاؤں میں آباد ہونے کے بعد باجاؤ افراد کی سماجی سرگرمیوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ محقق وینگکی کا کہنا ہے کہ اس سے بالخصوص نوجوان اپنی روایتی سمندری زندگی سے دور ہوتے جارہے ہیں جس کے باعث ان کی شناخت میں ابہام پیدا ہورہا ہے۔ انٹرنیٹ تک رسائی کی بدولت ان لوگوں نے سوشل میڈیا گروپس بنا لیے ہیں جس کے ذریعے وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
بعض لوگ چاہتے ہیں کہ باجاؤ اپنی روایتی طرز زندگی کو بر قرار رکھیں۔ ایک طویل عرصے سے شناخت سے محروم باجاؤ حکومت کی جانب سے اپنی حیثیت کو تسلیم کیے جانے کے منتظر ہیں۔