انڈونیشیا: ہم جنس پرستوں کے خلاف کریک ڈاؤن
25 فروری 2016انڈونیشیا میں ہم جنس پرستوں کے خلاف تازہ کارروائیوں کا آغاز ایک ملکی وزیر کی اس تقریر کے بعد شروع ہوا ہے، جس میں انہوں نے ایک یونیورسٹی میں ہم جنس پرست اسٹوڈنٹس کے لیے مشاورتی سروس فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے انڈونیشیا کے سخت گیر وزیر دفاع ریامیزارد ریاکودو نے ہم جنس پرست کمیونٹی کو ملک کے لیے ’خطرہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے خلاف مہم کو ’’ جدید جنگ کی ایک قسم‘‘ قرار دیا تھا۔ ٹیمپو نیوز ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ خطرناک ہے کہ ہم اپنے دشمن کو نہیں دیکھ سکتے لیکن اس کے ہاتھوں ہر ایک کی ذہن سازی کی جا رہی ہے۔‘‘
انڈونیشیا حکومت نے ہم جنس پرستوں کی ویب سائٹس بند کر دی ہیں جبکہ ملک کے تمام ٹی وی چینلز کو ان کے بارے میں پروگرام چلانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تمام میسجنگ ایپلی کیشنز سے وہ تمام سمائیلیز یا اسٹیکرز ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے، جو مخصوص طور ہم جنس پرستوں کے لیے بنائی گئی ہیں۔
انڈونیشیا کی اسلامی کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ ملکی پارلیمان میں ہم جنس پرستوں کے مابین سیکس کو باقاعدہ جرم قرار دیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق قانون ساز ایک ایسے ہی بل کا مسودہ تیار کر رہے ہیں تاکہ اسے پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش کیا جا سکے۔
انڈونیشیا کی حکومت ان دنوں جسم فروشی اور منشیات فروشی کے خلاف بھی بھرپور طریقے سے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ کے حوالے سے بتایا ہے کہ انڈونیشیا میں موبائل فون کی ایپس اور مختلف انٹر نیٹ چیٹ ہاؤسز میں ہم جنس پرستوں سے متعلق اسٹیکرز اور سمائیلیز کو ہٹانے سے اس کمیونٹی کے افراد کے حقوق پر قدغن لگی ہے۔ معاشرتی طور پر قدامت پسند ملک انڈونیشیا میں ہم جنسی پرستی اور مختلف جنسی میلانات رکھنے والے افراد کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا جاتا رہا ہے۔
نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے صدر جوکو ودودو کو لکھے ایک خط میں کہا ہے کہ انہیں بذات خود ایسے محکموں کی مذمت اور سرزنش کرنا چاہیے، جنہوں نے ہم جنس پرستوں کے خلاف ایسے امتیازی احکامات جاری کیے ہیں۔ اس خط میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات دراصل مختلف جنسی رجحانات رکھنے والی کمیونٹی ’ایل جی بی ٹی‘ کے خلاف مزید امتیازی سلوک کا راستہ استوار کر دیں گے۔
یہ امر اہم ہے کہ انڈونشیا میں ہم جنس پرستی غیر قانونی نہیں ہے لیکن وہاں یہ معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا تصور کیا جاتا ہے۔