انڈونیشی صدر پرابوو سوبیانتو دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ ان کے اس دورے کو دونوں ممالک کے درمیان قربت میں مزید وسعت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
انڈونیشیا کے صدر کے استقبال کے لیے پاکستانی وزیراعظم اور صدر پہنچے تھےتصویر: Aamir Qureshi/Pakistan's President Office/AFP
اشتہار
انڈونیشیا کے صدر پرا بووو سوبیانتو پیر کے روز پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف کی دعوت پر دو روزہ سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچے، جہاں انہیں ریڈ کارپٹ استقبال دیا گیا۔
نور خان ایئربیس پر آمد کے موقع پر انڈونیشین صدر کا پرتپاک استقبال صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے کیا، جن کے ہمراہ کابینہ کے ارکان اور اعلیٰ حکومتی حکام بھی موجود تھے۔
صدرِ پاکستان کے باڈی گارڈز کے ایک دستے نے مہمان صدر کو سلامی پیش کی۔ صدر پرا بووو کے ہمراہ اعلیٰ سطحی وفد بھی تھا جس میں اہم وزراء اور سینئر حکام شامل تھے۔
پاکستانی خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق صدر پرا بووو عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار پاکستان پہنچ رہے ہیں، جب کہ ان سے قبل 2018 میں صدر جوکو ویدودو پاکستان آئے تھے۔
دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیںتصویر: Aamir Qureshi/Pakistan's President Office/AFP
اپنے قیام کے دوران صدر پرا بووو وزیرِاعظم شہباز شریف کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات کریں گے اور صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کریں گے۔ فوجی سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی صدر پرا بووو سے ملاقات کریں گے۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں سابق پاکستانی سفیر برائے اقوام متحدہ جی آر بلوچ نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور انسداد دہشت گردی میں تعاون اس دورے میں کلیدی موضوعات ہو سکتے ہیں۔
جی آر بلوچ کے مطابق، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات دیرینہ ہیں تاہم اب دنیا میں چوں کہ طاقت کے نئے مراکز بن رہے ہیں، ایسے میں پاکستان اور انڈونیشیا کی قربت میں وسعت پیدا ہو سکتی ہے۔
غزہ کے موضوع پر عرب اور مسلمان ممالک کے رہنماؤں سے صدر ٹرمپ کی ملاقات میں انڈونیشیا کے صدر بھی شامل تھےتصویر: Alexander Drago/REUTERS
ان کا کہنا تھا، ''غزہ میں امن فورس کی تعیناتی کے اعتبار سے پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، اردن اور مصر اہم ممالک تھے۔ اسرائیل چوں کہ ترک أفواج کی تعیناتی کو رد کر چکا ہے، اس لیے پاکستان اور انڈونیشیا کی اہمیت اور بھی بڑھ چکی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''انڈونیشیا پہلے ہی غزہ میں کسیممکنہ امن فورس میں اپنی فوج کی تعیناتی کی حمایت کر چکا ہے۔ پاکستان نے گو کہ اب تک باضابطہ طور پر ایسی کسی تعیناتی کا اعلان نہیں کیا، تاہم پاکستانی فوج اقوام متحدہ کے درجنوں امن مشنوں میں شمولیت کی وجہ سے وسیع تر تجربہ رکھتی ہے اور ممکنہ طور پر غزہ میں اس کی تعیناتی یقینی ہے۔‘‘
جی آر بلوچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی ایک بڑا عالمی مسئلہ ہے، جس سے دنیا کے تقریباﹰ تمام ہی ممالک کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ایسے میں یہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف اپنے تعاون میں وسعت پیدا کر سکتے ہیں۔
بہترین دارالحکومت کی تلاش
انڈونیشی حکومت عرصے سے ملکی دارالحکومت جکارتہ سے باہر منتقل کرنا چاہتی ہے۔ جکارتہ میں ٹریفک مستقل بدنظم رہتی ہے اور یہ شہر سمندر میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ اسے سے قبل کئی ممالک اپنے دارالحکومت دوسرے شہروں میں منتقل کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/B. Ismoyo
نائجیریا، گرمی سے فرار
کئی ملین کی آبادی والا شہر لاگوس 1991ء تک نائجیریا کا دارالحکومت تھا۔ لیکن اس شہر کی آبادی اس کی بساط سے بہت زیادہ ہو چکی ہے، وہاں کا ماحول بہت گرم اور حبس کا شکار ہے اور ٹریفک کا نظام تو ’قاتلانہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ نیا دارالحکومت آبوجہ، دائیں، لاگوس سے 300 کلومیٹر دور اور کافی اونچائی پر واقع ہے، جہاں آب و ہوا بھی بہت بہتر ہے۔
کینبرا، ایک مصالحتی حل
انیسویں صدی میں آسٹریلیا کے دو سب سے بڑے شہروں سڈنی اور میلبورن کے درمیان مقابلہ اس بارے میں تھا کہ ملکی دارالحکومت کس شہر کو ہونا چاہیے۔ لیکن حکومت نے اس مسئلے کا ایک مصالحتی حل نکالا تھا اور ملک کے جنوب مشرق میں واقع کینبرا کو نیا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کینبرا سڈنی اور میلبورن کے تقریباﹰ درمیان میں واقع ہے۔
تصویر: picture-alliance
برازیلیہ، کامیاب منتقلی
داخلی سطح پر طویل مذاکرات کے بعد 1960ء میں برازیلیہ، تصویر میں دائیں، کو ریو ڈی جنیرو کے بجائے برازیل کا نیا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کی وجہ بھی یہی تھی کہ ریو کی آبادی بہت زیادہ ہو چکی تھی اور یہ شہر ملک کے بالکل ایک سرے پر واقع تھا۔ یہ منصوبہ اتنا کامیاب رہا تھا کہ اسے بعد میں کئی دیگر ممالک نے اپنے اپنے دارالحکومت دوسرے شہروں میں منتقل کرنے کے لیے ایک مثال بنا لیا تھا۔
میانمار، ایک عظیم تر منصوبہ
2005ء میں میانمار کا دارالحکومت ینگون سے ملک کے وسطی حصے میں واقع نیپیادیو میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ یوں فوجی حکمرانوں نے بھی اس ملک میں ہر دور میں نئے دارالحکومت کی بنیاد رکھنے کی روایت جاری رکھی۔ یہ شہر بہت بڑا ہے، رقبے میں فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے 70 گنا بڑا۔ وہاں کسی ایک سرکاری محکمے کی عمارت سے دوسری میں جانے کے لیے کبھی کبھی تو بالکل خالی سڑکوں پر تقریباﹰ آدھ گھنٹے تک سفر کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان، معشیت کے بجائے فوج
1959ء میں پاکستانی حکومت نے فیصلہ کیا کہ دارالحکومت کراچی، بائیں، سے اسلام آباد، دائیں، منتقل کر دیا جائے گا۔ اس کا ایک مقصد کراچی کے امیر طبقے کا ملکی سیاست پر اثر کم کرنا بھی تھا۔ اسلام آباد راولپنڈی کے قریب ایک جڑواں شہر کے طور پر بسایا گیا، جہاں ملکی فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز بھی ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا متنازعہ اور منقسم خطہ بھی اسلام آباد سے زیادہ دور نہیں ہے۔
نور سلطان، ایک حکمران کی علامت
آستانہ، دائیں، بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت آباد کیا گیا تھا۔ اہم کاروباری مرکز الماتی، بائیں، سے دارالحکومت کی آستانہ منتقلی 1997ء میں عمل میں آئی اور اس شہر کا فیوچرسٹ نقشہ جاپانی ماہر تعمیرات کیشو کُوروکاوا نے تیار کیا تھا۔ 2019ء میں اس شہر کا نام بدل کر نور سلطان رکھ دیا گیا، جس کا مقصد سابق سربراہ مملکت اور طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے صدر نور سلطان نذربائیف کے لیے اظہار عقیدت تھا۔
ماسکو، پرانے دارالحکومت کا ظہور
بالشویک انقلاب کے نتیجے میں (سابق) سوویت یونین کے قیام کے بعد 1918ء میں روسی دارالحکومت بھی سینٹ پیٹرزبرگ سے ماسکو منتقل کر دیا گیا تھا۔ ماسکو اس سے بہت پہلے کے دور میں بھی روس کا دارالحکومت رہا تھا لیکن پھر زار پیٹر اعظم نے اپنی ریاست کا دارالحکومت ماسکو کے بجائے سینٹ پیٹرزبرگ کو بنا لیا تھا۔
جرمنی، دوبارہ اتحاد کا دارالحکومت
دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی تقسیم ہو گیا تھا۔ مغربی جرمن ریاست کا دارالحکومت بون، بائیں، تھا اور برلن، دائیں، مشرقی حصے پر مشتمل جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کا دارالحکومت۔ لیکن مغربی حصے پر مشتمل وفاقی جرمن ریاست کے آئین میں لکھا گیا تھا کہ جرمنی کا دوبارہ اتحاد ہوا، تو دارالحکومت پھر برلن ہی ہو گا۔ اسی لیے 1990ء میں دونوں جرمن ریاستوں کے اتحاد کے بعد متحدہ جرمنی کا دارالحکومت ایک بار پھر برلن ہی بنا۔
8 تصاویر1 | 8
واضح رہے کہ انڈونیشی صدر کے اس دورے کے دوران متعدد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے جانے کی توقع ہے۔ یہ دورہ اس لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ پاکستان اور انڈونیشیا کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہو رہا ہے۔
دونوں ممالک کے وفود باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور تعاون کے نئے شعبوں، جیسے تجارت، سرمایہ کاری، دفاع، صحت، آئی ٹی، موسمیات، تعلیم اور ثقافت، میں مواقع تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی سطح پر اشتراک بڑھانے پر بھی بات چیت کریں گے۔