1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشی صوبے آچے میں سونامی کو پندرہ برس ہو گئے

26 دسمبر 2019

چھبیس دسمبر سن 2004 کو انڈونیشی صوبے آچے کو ایک زوردار زلزلے اور سونامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس خوفناک قدرتی آفت سے ہزاروں انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔

Indonesien Gedenken Tsunami Katastrophe 2004
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Nurhasanah

قدرتی آفات کی تاریخ میں کئی اندوہناک واقعات ملتے ہیں جو لاتعداد انسانی جانوں کےتضیع کا سبب بنے۔ انہی واقعات میں مشرق بعید کے ملک انڈونیشیا کے ایک صوبے آچے میں پندرہ برس قبل آنے والا زلزلہ اور پھر سونامی بھی شامل ہیں۔ اس آفت نے آچے کی کئی انسانی بستیوں  کو نیست ونابود کر دیا تھا۔

آچے کا ایک مقام آچے بیسار اپنی شادابی و ہریالی کے لیے سارے ملک میں جداگانہ حیثیت رکھتا ہے لیکن اس میں پندرہ برس قبل جب سونامی لہریں داخل ہوئیں تو سینتالیس ہزار انسان ہلاک ہو گئے تھے۔ آج اس شہر میں ہونے والی خصوصی دعائیہ تقریبات میں ہزاروں لوگوں نے اپنے بچھڑ جانے والوں کو یاد کیا اور اُن کی قبروں پر پھولوں کی پتیاں ڈالی۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ رشتہ دار اپنے احباب کو مسلسل یاد کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

آچے بیسار میں قبروں پر پھولوں کی پتیاں ڈالی گئیںتصویر: picture-alliance/dpa/Nurhasanah

آچے میں سونامی کی وجہ وہ زیر سمندر آنے والا شدید زلزلہ تھا، جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر9.1 ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس زلزلے کی لپیٹ میں آ کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار تھی اور پھر بحر ہند سے خشکی پر تباہی پھیلانے والی سونامی نے مزید پچاس ہزار انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ پانچ لاکھ سے زائد انسانوں کو زلزلے اور سونامی کی وجہ سے عارضی کیمپوں میں منتقل ہونا پڑا تھا۔

سونامی کے ساتھ آنے والا تیز رفتار سمندری ریلا کئی افراد کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا تھا اور ایسے افراد کی نعشیں بھی دستیاب نہیں ہو سکی تھیں۔ اس کے باوجود جمعرات چھبیس دسمبر کو آچے بیسار میں کئی لوگ ایسے لاپتہ رشتہ داروں کو یاد کرتے رہے اور اُن کے لیے دعاؤں میں شریک رہے۔

آچے میں آنے والے زلزلے و سونامی کے ہلاک شدگان کے لیے مسیحی کمیونٹی کے افراد کی دعائیہ عبادتتصویر: Getty Images/AFP/C. Mahyuddin

ایسے لاپتہ افراد کی باقیات مسلسل سمندری ساحلی پٹیوں سے مل رہی ہیں۔ سن 2018 میں کم از کم ایک درجن افراد کے جسموں کی ہڈیاں ساحلی علاقوں پر سے ملی تھیں۔ ایسی ہڈیاں آچے بیسار میں کئی تعمیراتی منصوبوں کے لیے کھودی جانے والی زمین سے بھی دستیاب ہوئی ہیں۔ ان کے ڈی این اے ٹیسٹ سے ہی ان کی شناخت ممکن ہوئی تھی۔

مسلم آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا کا صوبہ آچے مسلم اکثریتی صوبہ ہے۔ اب اس صوبے میں ایک سخت عقیدے کی شرعی حکومت قائم ہے اور شرعی قوانین کا نفاذ بھی کیا جا چکا ہے۔ آچے کی صوبائی حکومت کے خاص طور پر ہم جنس پرستی کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات پر بین الاقوامی سطح پر تشویش بھی پائی گئی ہے۔

ع ح ⁄ ک م (اے ایف پی)

’ڈیٹ‘ پر جانے کی سزا کوڑے

02:36

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں