انڈوں اور آٹے کے ساتھ اقتدار کی جنگ، دو سو سال پرانی روایت
مقبول ملک ع ت
29 دسمبر 2019
کہتے ہیں کہ اشیائے خوراک کے ساتھ کھیلنا نہیں چاہیے۔ لیکن اسپین میں ہر سال کم از کم ایک بار اس کہاوت پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ یہ دن اٹھائیس دسمبر کا ہوتا ہے، جس روز اقتدار کی جنگ انڈوں اور آٹے سے لڑی جاتی ہے۔
اشتہار
ہر سال کرسمس اور سال نو کے درمیانی عرصے میں 28 دسمبر کے روز یہ استثنائی صورت حال اسپین کے صوبے آلیکانتے کے چھوٹے سے علاقے ایبی میں دیکھنے میں آتی ہے اور کل ہفتے کے روز امسالہ فیسٹیول میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ایسا اس سالانہ عوامی میلے کے موقع پر کیا جاتا ہے، جس کی روایت کم از کم بھی دو صدیاں پرانی ہے۔
اس مقامی میلے کا نام 'ایلس اینفاریناتس‘ (Els Enfarinats) ہے اور اس روز مختلف ملیشیا گروپوں کی یونیفارم پہنے ہوئے 'مسلح‘ مقامی باشندے اس طرح اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ ڈھونگ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی دلچسپ بھی ہوتا ہے۔
ان جنگجوؤں کے 'ہتھیار‘ انڈے اور آٹا ہوتے ہیں اور 'جنگ‘ کے اختتام پر اس چھوٹے سے بلدیاتی علاقے کی سڑکیں اور گلیاں انڈوں اور آٹے کی وجہ سے سفید ہو چکی ہوتی ہیں۔
ہر سال 28 دسمبر کو منایا جانے والا یہ ایک روزہ روایتی میلہ ان تقریبات کا حصہ ہوتا ہے، جو مقامی طور پر 'یوم معصومین‘ کے موقع پر منائی جاتی ہیں۔ اس میلے کا نام اسپین میں ویلینسیا کی مقامی زبان میں 'روٹی‘، 'بریڈ‘ یا کہا جا سکتا ہے کہ 'آٹے‘ سے جڑا ہوا ہے۔
'ملیشیا ارکان کی بغاوت‘
اس میلے کے شرکاء، جو 'ایلس اینفاریناتس‘ کہلاتے ہیں، محض دکھاوے کی عسکری یونیفارم پہنے ہوئے ہوتے ہیں، جو 'بغاوت‘ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہمراہ شہر میں گشت کرنے والے موسیقاروں کا ایک بینڈ بھی ہوتا ہے، جو 'رونڈالا‘ کہلاتا ہے۔
میلے کا آغاز صبح آٹھ بجے اس وقت ہوتا ہے، جب 'باغی ملیشیا ارکان‘ حکمرانوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے اور 'نئے انصاف‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔
پھر صبح نو بجے یہ باغی اپنے طور پر شہر کے نئے میئر کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک نام نہاد ٹیکس نظام متعارف کرائے جانے کے بعد عام لوگوں سے مالی ادائیگیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور جو مقامی باشندے ٹیکس نہ دے سکیں، انہیں 'جیل‘ بھیج دیا جاتا ہے۔
'میدان جنگ‘ قصبے کا وسطی حصہ
اس میلے کے دوران 'اقتدار پر قبضہ‘ کر لینے والے ملیشیا ارکان کو 'جنگ‘ بھی لڑنا پڑتی ہے۔ اس کے لیے 'میدان جنگ‘ ایبی نامی قصبے کا قدیمی وسطی حصہ بنتا ہے اور جنگی فریقین کے مابین 'لڑائی‘ کے ہتھیار 'انڈے اور آٹا‘ ہوتے ہیں۔
پھر ساتھ ساتھ پٹاخے بھی چلائے جاتے ہیں اور متحارب فریقین ایک دوسرے پر کچے انڈوں اور آٹے کے ان چھوٹے چھوٹے پیکٹوں سے حملے کرتے ہیں، جنہیں 'سفید بم‘ کہا جاتا ہے۔
یہ میلہ ٹھیک شام پانچ بجے اس وقت ختم ہو جاتا ہے، جب قصبے کی گلیاں آٹے سے سفید اور انڈوں کی سفیدی اور زردی کے باعث بہت زیادہ پھسلن والی ہو چکی ہوتی ہیں۔
میلے کے اختتام پر 'ایلس اینفاریناتس‘ کا اقتدار بھی ختم ہو جاتا ہے اور پھر خوشی کی وہ روایتی اجتماعی تقریبات شروع ہو جاتی ہیں، جو 'ڈانسا‘ کہلاتی ہیں اور جس دوران شرکاء کئی گھنٹوں تک روایتی رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اسپین میں ٹماٹروں سے جنگ، ایک منفرد تہوار
اسپین میں منعقد ہونے والے ’ٹوماٹینا فیسٹیول‘ کو دنیا کی سب سے بڑی ’فوڈ فائٹ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں شریک افراد ایک دوسرے کو ٹماٹروں سے مارتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
اسپین میں منائے جانے والے کئی تہورا دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک ’ٹوماٹینا فیسٹیول‘ بھی ہے۔ اس دوران نیم برہنہ شائقین ایک دوسرے پر ٹماٹر برساتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
پچاس کی دہائی میں اس تہوار کے انعقاد پر چند برسوں تک پابندی عائد رہی لیکن بعدازاں اسے دوبارہ منانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ اس سالانہ تہوار میں شرکت کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
اس دوران ایک ٹرک پر تقریباً سوا لاکھ کے قریب ٹماٹر لدے ہوتے ہیں اور یہ ٹرک بونول کی پتلی سڑکوں سے گزرتا ہے۔ سڑک کے کنارے کھڑے افراد کے سروں پر ٹماٹر مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ٹوماٹینا فیسٹیول کا آغاز 1945ء میں ہوا تھا اور ہر سال یہ اگست کے آخری بدھ کے روز منایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
بونول شہر کی مقامی انتظامیہ کے مطابق گزشتہ برسوں کے دوران جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹوماٹینا اپنی شناخت کھوتا جا رہا تھا۔’’شائقین کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خطرات میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ لیکن اب نئے اقدامات کے بعد دوبارہ سے اسے بھرپور انداز میں منایا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
ٹوماٹینا اپنے پاگل پن کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے اور اسی وجہ سے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اسپین کا رخ کرتی ہے۔ ٹوکیو سے تعلق رکھنے والی پچیس سالہ آیانو سائیتو نے بتایا کہ ’’اس فیسٹیول کے پاگل پن کو ہی دیکھتے ہوئے بہت سے جاپانی اس میں شرکت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک منفرد تہوار ہے۔‘‘
جنوبی اسپین کے شہر بونول میں منعقد کیے جانے والے اس تہوار میں ایک بڑے ٹرک کے ذریعے راستے میں کھڑے افراد پر ٹماٹر برسائے جاتے ہیں۔ مقامی اور دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزاروں سیاحوں کے جسموں پر صرف ٹماٹر کے بیج اور چھلکے ہی دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Saiz
اس دوران مقامی افراد اپنے گھروں اور دکانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مختلف اقدامات کرتے ہیں۔ تاہم اس تہوار کے بہت سارے انتظامات اب نجی اداروں کے حوالے کرنے سے ٹوماٹینا کے جوش و جذبے میں بھی فرق پڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
مقامی حکام نے تحفظ اور انتظامات کے نام پر’اسپین ٹاس ٹک‘ نامی ایک نجی کمپنی کو اس تہوار میں شرکت کے لیے داخلہ فیس وصول کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ دوسری جانب شہری انتظامیہ نے بتایا کہ سکیورٹی کی ذمہ داری ایک نجی کمپنی کے حوالے کرنے سے کافی بہتری ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
اس فیسٹیول میں شریک ستائیس سالہ جیسیکا سمز امریکی ریاست یوٹا سے اسپین پہنچی ہیں۔ وہ خوشی سے بتاتی ہیں کہ ’ٹماٹروں کو پھینکنا اور اس کا نشانہ بننا ایک اچھی تفریح ہے۔ ٹماٹر بارش کی طرح برستے رہتے ہیں‘۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Saiz
جیسیکا کے بقول یہ فیسٹیول ایک جانب تفریح ہے تو دوسری طرف خوف بھی رہتا ہے، ’’یہ خطرہ موجود ہے کہ اگر آپ ٹماٹر اٹھانے کے لیے نیچے جھکے تو شاید آپ کے لیے دوبارہ کھڑے ہونا ممکن نہیں ہو گا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/Gtresonline
دوسری جانب خوراک کے ضیاع کے خلاف سرگرم کارکن اس تہوار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ٹماٹروں کو ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ انہیں مستحق افراد تک پہنچایا جائے۔