انگریز ناول نگار کین فولیٹ کی پینسٹھویں سالگرہ
5 جون 2014
دنیا کے کامیاب ترین ادیبوں میں شمار ہونے والے کین فولیٹ کہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں اِس برطانوی ادیب نے کہا ہے کہ اُنہوں نے جو جو کچھ سوچا تھا، وہ حاصل کر لیا ہے اور اُن کی تمام خواہشات پوری ہوئی ہیں:''مَیں بچپن سے ہی ایک سٹار بننا چاہتا تھا۔ ادیب عام طور پر کہا کرتے ہیں کہ اُن کے پاس ایک پیغام تھا، جو وہ دُنیا کو دینا چاہتے تھے۔ میرے لیے ایسا نہیں ہے۔ مَیں لوگوں کو تفریح فراہم کرنا چاہتا تھا۔ مَیں چاہتا ہوں کہ وہ میری کہانیوں کو پسند کریں۔‘‘
پانچ جون کو اپنی 65 ویں سالگرہ منانے والے کین فولیٹ کو عالمی شہرت اُن کے 1978ء میں منظر عام پر آنے والے ناول ’دی نیڈل‘ کے ذریعے ملی۔ ’زمین کے ستون‘ نامی ناول 1989ء میں شائع ہوا اور چھ سال تک جرمنی میں سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں کی فہرست میں شامل رہا۔ اس ناول کا دوسرا حصہ ’ورلڈ وِد آؤٹ اینڈ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ان دونوں حصوں میں انگلستان میں آج سے چھ سات سو سال قبل کے معاشرے کی خوبصورت انداز میں عکاسی کی گئی ہے۔
آج کل فولیٹ ہفتے میں پانچ روز صبح سے لے کر شام تک اپنی کتابوں پر کام کرتے ہیں۔ اُنہوں نے اگلے نو برسوں میں تین مزید کتابیں لکھنے کا عزم کر رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اُنہیں ادبی اعزازات اور انعامات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور یہ کہ وہ تو بس بیسٹ سیلر لکھنا چاہتے ہیں۔ فولیٹ کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے قارئین اُن کی کہانیوں کو پسند کریں نہ کہ اُن کہانیوں کے لکھنے والے کو:’’مَیں چاہتا ہوں کہ لوگ میری کتابیں پڑھیں اور کہیں، واہ بہت شاندار ہے۔‘‘
کین فولیٹ کہتے ہیں کہ لاس اینجلس میں رَیڈ کارپٹ پر خراجِ تحسین حاصل کرنا بھی شاندار ہو گا، اگر اُن کی کہانیوں پر بننے والی کوئی فلم آسکر ایوارڈ حاصل کر لے۔ اب تک کین فولیٹ کی آٹھ کتابوں کو سینما اسکرین یا ٹیلی وژن پر فلمایا جا چکا ہے لیکن اب تک اُن کی کہانی پر مبنی کوئی بھی فلم آسکر ایوارڈ حاصل نہیں کر سکی ہے۔
کین فولیٹ ایک سخت گیر مذہبی گھرانے میں پلے بڑھے۔ اُس گھر میں روز بائبل پڑھی اور پڑھائی جاتی تھی جبکہ ٹی وی، سینما اور ریڈیو شجر ممنوعہ تھے۔ اُن کی والدہ اُنہیں بہت سی کہانیاں، گیت اور نظمیں سناتی تھی۔ آج وہ کہتے ہیں:’’بچپن میں مَیں اِن تمام سنی ہوئی باتوں پر یقین کرتا تھا۔ مجھے فرشتوں اور شیطان کے وجود پر یقین تھا۔‘‘
بائبل میں سے سنی گئی کہانیاں اُن کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت رکھتی تھیں کیونکہ وہ اُن کے تخیل کو خاص طور پر تحریک دیتی تھیں۔
فولیٹ نے کچھ عرصہ قبل گزشتہ صدی میں تواتر سے تاریخ کا دھارا بدلنے والے واقعات پر مبنی ایک پوری صدی کی کتھا لکھنی شروع کی تھی۔ اب تک اس سلسلے کے دو ناول شائع ہوئے ہیں، جنہیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس کہانی کا آغاز وہ بیسویں صدی کے پہلے اور دوسری عشرے سے کرتے ہیں، جس میں پہلی عالمی جنگ کے بعد تک کے واقعات بیان کیے گئے۔ اس کتاب کا نام ’فال آف جائنٹس‘ (Fall of Giants) تھا اور یہ سن 2010 میں شائع ہوئی تھی۔
بیسویں صدی کی داستان کے سلسلے میں دوسری کتاب ’وِنٹر آف دی ورلڈ‘ (Winter of the world) سن 2012 میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں دوسری عالمی جنگ اور جرمنی میں نازی حکومت کے قیام تک کے عرصے کو سمویا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے واقعات پر مبنی ناولوں کے تیسرے حصے میں سرد جنگ کے دور کا احاطہ کیا گیا ہے۔ رواں برس کے اختتام پر شائع ہونے والے حصے کا نام ’ اَیج آف اٹرنیٹی‘ (Edge of Eternity) ہے۔ فولیٹ کاایک صدی کی کہانی کا کتابی سلسلہ ایک ساتھ کئی ملکوں میں شائع کیا جاتا ہے۔