انگلینڈ میں ٹرک سے ملنے والی انتالیس لاشیں، سب چینی شہری تھے
24 اکتوبر 2019
جنوب مغربی انگلینڈ میں ایک ریفریجریٹڈ ٹرک سے ملنے والی تمام انتالیس لاشیں چینی شہریوں کی تھیں۔ شمالی آئرلینڈ میں تین مقامات پر مارے گئے چھاپوں کے بعد اس بات کی برطانوی پولیس کے علاوہ چینی وزرات خارجہ نے بھی تصدیق کر دی۔
اشتہار
ان غیر ملکیوں کی لاشیں بدھ تیئیس اکتوبر کی صبح جنوب مغربی انگلینڈ میں ایسیکس کاؤنٹی کے ایک صنعتی علاقے میں ایک ایسے مال بردار ٹرک سے ملی تھیں جو تازہ یا منجمد اشیائے خوراک کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس بارے میں ایسیکس پولیس نے آج تصدیق کر دی کہ مرنے والے تمام 39 افراد چینی باشندے تھے۔
برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ میں فرق کیا ہے؟
دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی نوآبادی بنانے والے چھوٹے سے جزیرے کو کبھی برطانیہ، کبھی انگلینڈ اور کبھی یو کے لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا ان ناموں کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کیا یہ ایک ہی ملک کا نام ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
یونائیٹڈ کنگڈم (یو کے)
یو کے در حقیقت مملکت متحدہ برطانیہ عظمی و شمالی آئرلینڈ، یا ’یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن اینڈ ناردرن آئرلینڈ‘ کے مخفف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یو کے چار ممالک انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ اور ویلز کے سیاسی اتحاد کا نام ہے۔
تصویر: Getty Images/JJ.Mitchell
برطانیہ عظمی (گریٹ بریٹن)
جزائر برطانیہ میں دو بڑے اور سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں۔ سب سے بڑے جزیرے کو برطانیہ عظمی کہا جاتا ہے، جو کہ ایک جغرافیائی اصطلاح ہے۔ اس میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز شامل ہیں۔ انگلینڈ کا دارالحکومت لندن ہے، شمالی آئرلینڈ کا بیلفاسٹ، سکاٹ لینڈ کا ایڈنبرا اور کارڈف ویلز کا دارالحکومت ہے۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
برطانیہ
اردو زبان میں برطانیہ کا لفظ عام طور پر یو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانیہ رومن لفظ بریتانیا سے نکلا ہے اور اس سے مراد انگلینڈ اور ویلز ہیں، تاہم اب اس لفظ کو ان دنوں ممالک کے لیے کم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیر نظر تصور انگلینڈ اور ویلز کے مابین کھیلے گئے فٹبال کے ایک میچ کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain
انگلینڈ
اکثر انگلینڈ کو برطانیہ (یو کے) کے متبادل کے طور پر استعمال کر دیا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انگلینڈ جزائر برطانیہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یا پھر اس لیے کہ انگلینڈ اور یو کے کا دارالحکومت لندن ہی ہے۔
تصویر: Reuters/J.-P. Pelissier
جمہوریہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ
جزائر برطانیہ میں دوسرا بڑا جزیرہ آئرلینڈ ہے، جہاں جمہوریہ آئر لینڈ اور شمالی آئرلینڈ واقع ہیں ان میں سے شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے۔
زبان
انگریزی یوں تو جزائر برطانیہ میں سبھی کی زبان ہے لیکن سبھی کے لہجوں میں بہت فرق بھی ہے اور وہ اکثر ایک دوسرے کے بارے میں لطیفے بھی زبان کے فرق کی بنیاد پر بناتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
وجہ شہرت
سکاٹ لینڈ کے لوگ اپنی دنیا بھر میں مشہور اسکاچ پر فخر کرتے ہیں اور بیگ پائپر کی موسیقی بھی سکاٹ لینڈ ہی کی پہچان ہے۔ آئرلینڈ کی وجہ شہرت آئرش وہسکی اور بیئر ہے جب کہ انگلینڈ کے ’فش اینڈ چپس‘ مہشور ہیں۔
تصویر: Getty Images
اختلافات
یو کے یا برطانیہ کے سیاسی اتحاد میں شامل ممالک کے باہمی اختلافات بھی ہیں۔ بریگزٹ کے حوالے سے ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ کے شہری یورپی یونین میں شامل رہنے کے حامی دکھائی دیے تھے اور اب بھی ان کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کی صورت میں وہ برطانیہ سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
یورپی یونین اور برطانیہ
فی الوقت جمہوریہ آئر لینڈ اور برطانیہ، دونوں ہی یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ بریگزٹ کے بعد تجارت کے معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ مسائل شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کی سرحد پر پیدا ہوں گے۔ برطانیہ کی خواہش ہے کہ وہاں سرحدی چوکیاں نہ بنیں اور آزادانہ نقل و حرکت جاری رہے۔
تصویر: Reuters/T. Melville
بریگزٹ کا فیصلہ کیوں کیا؟
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق ریفرنڈم میں بریگزٹ کے حامی کامیاب رہے تھے۔ ان لوگوں کے مطابق یونین میں شمولیت کے باعث مہاجرت بڑھی اور معاشی مسائل میں اضافہ ہوا۔ ریفرنڈم کے بعد سے جاری سیاسی بحران اور یورپی یونین کے ساتھ کوئی ڈیل طے نہ ہونے کے باعث ابھی تک یہ علیحدگی نہیں ہو پائی اور اب نئی حتمی تاریخ اکتیس اکتوبر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
10 تصاویر1 | 10
ساتھ ہی پولیس نے یہ بھی بتایا کہ ان ہلاک شدگان میں سے 31 مرد تھے اور آٹھ خواتین۔
قبل ازیں ان تین درجن سے زائد افراد میں سے ایک کے ایک کم عمر لڑکی ہونے کی اطلاع دی گئی تھی۔ تاہم بعد میں طے ہو گیا کہ بظاہر یہ نابالغ لڑکی بھی دراصل ایک بالغ چینی خاتون تھی۔
مبینہ ٹرک ڈرائیور گرفتار
نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ برطانوی پولیس نے شمالی آئرلینڈ میں مارے گئے ایک چھاپے کے دوران ایک ایسے 25 سالہ مرد کو گرفتار کر لیا ہے، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہی اس ٹرک کا ڈرائیور تھا۔
اس پر ان 39 غیر ملکیوں کے قتل کا شبہ ہے مگر اس پر ابھی تک باقاعدہ فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔
اس ملزم پر الزام ہے کہ اسی نے اس ٹرک کو چلاتے ہوئے اسے برطانوی دارالحکومت لندن سے 32 کلومیٹر (20 میل) دور ایسیکس کاؤنٹی کے گریز (Grays) نامی علاقے میں اس جگہ تک پہنچایا تھا، جہاں یہ مال بردار ٹرک پولیس کو ملا تھا۔
اسی دوران برطانوی پولیس نے یہ تصدیق بھی کر دی ہے کہ ان درجنوں چینی شہریوں کی ہلاکت کے سلسلے میں آئرلینڈ میں تین مختلف املاک پر چھاپے مارے گئے اور اس ٹرک کے مبینہ ڈرائیور کو انہی میں سے ایک چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان چالیس کے قریب چینی باشندوں کی موت کن حالات میں ہوئی۔
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ مشرقی اور مغربی یورپ سے برطانیہ پہنچنے کی کوشش میں بہت سے غیر یورپی اور غیر قانونی تارکین وطن اکثر مال بردار گاڑیوں میں چھپ کر کے رودبار انگلستان کے پار پہنچنے کی کاوش کرتے ہیں۔ ادھر بیجنگ میں چینی وزارت کارجہ نے بھی ان تمام ہلاک شدگان کے چینی شہری ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔
کیلے کے جنگل کیمپ سے پیرس تک
فرانس کے ساحلی شہر کیلے کے قریب واقع جنگل نامی مہاجر بستی سے بے دخل ہونے والے ہزاروں پناہ گزین پیرس میں مختلف مقامات پر نئی رہائش گاہیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Platiau
پیرس میں بھی ٹھکانہ نہیں
جنگل کیمپ کی بندش کے بعد پیرس کی سڑکوں پر رہنے والے مہاجرین کی تعداد میں ایک تہائی اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/C. Platiau
ہیلو پیرس
کچھ تارکینِ وطن نے جنگل کی مہاجر بستی کو خیر باد کہنے کے بعد فرانسیسی دارالحکومت میں خیمے لگا لیے ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Platiau
یورپ میں بے گھر
گزشتہ برس فرانس پہنچنے والے پناہ گزینوں کا تعلق زیادہ تر افغانستان،سوڈان اور اریٹیریا سے تھا۔ اِن میں سے اکثر نے ٹرکوں اور بسوں میں سوار ہو کر انگلش چینل کے ذریعے برطانیہ فرار ہونے کی کوشش کی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Rossignol
کیلے سے نکالے جانے کا دن
مہاجر کیمپ کے رہائشیوں نے چھبیس اکتوبر کو مختلف مقامات پر آگ لگا کر قریب دس ہزار پناہ گزینوں کو کیمپ سے نکالے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Laurent
الوداع کیلے
دس ہزار کے قریب مہاجرین نے کیلے میں قائم ’جنگل‘ کیمپ کو اپنا گھر بنا رکھا تھا۔ یہاں رہتے ہوئے انہیں برطانیہ جانے کی امید تھی۔ کیلے میں حکام احتجاجی مظاہروں کے درمیان ان پناہ گزینوں کو دوسرے مقامات پر منتقل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
’جنگل‘
جنگل نامی مہاجر بستی میں مہاجرین کو اکثر ایسے عارضی خیموں میں بھی رہنا پڑا جو اُنہیں سخت موسم سے نہیں بچا سکتے تھے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
جنگل میں زندگی
ایک نو عمر لڑکا ’جنگل‘ کیمپ کے ایک ریستوران میں کھیل رہا ہے۔ وہ ریستوران جو اب باقی نہیں رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Huguen
یورپ کے لیے باعثِ شرمندگی
فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے کہا ہے کہ فرانس کے لیے مہاجرین کی مزید کسی عارضی بستی کا قیام اب نا قابلِ قبول ہو گا۔ ’جنگل‘ یورپ میں مہاجرین کے بحران کی علامت بن چکا تھا۔
تصویر: Reuters/C. Platiau
8 تصاویر1 | 8
ماضی کے المیے کی بازگشت
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انگلینڈ پہنچنے کی کوشش کے دوران غیر ملکی شہریوں کے اس طرح ہلاک ہو جانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
اس سے قبل 2000ء میں بھی برطانوی پولیس کو جنوبی انگلینڈ میں ڈوور کی بندرگاہ سے ایک ایسا ریفریجریٹڈ ٹرک ملا تھا، جو ٹماٹروں کی مال مرداری کے لیے مخصوص تھا لیکن حکام کو اس میں سے 58 چینی باشندوں کی لاشیں ملی تھیں۔
کنٹینر بیلجیم سے انگلینڈ پہنچا
ایسیکس کاؤنٹی سے کل ملنے والے ٹرک کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کا ریفریجریٹڈ کنٹینر والا حصہ بیلجیم کی ایک بندرگاہ سے ایک فیری کے ذریعے برطانیہ لایا گیا تھا۔
اس ٹرک کا ٹرانسپورٹر یا گاڑی کے طور پر رجسٹرڈ حصہ مشرقی یورپی ملک بلغاریہ میں رجسٹرڈ ہے اور اس نے اپنا سفر برطانیہ میں شمالی آئرلینڈ سے شروع کیا تھا۔
ان ہلاکتوں کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ برطانیہ میں یہ اتنے زیادہ افراد کے قتل کی تفتیش کا 2005ء کے بعد سے آج تک کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل وسیع پیمانے پر قتل کے کسی واقعے کی چھان بین انگلینڈ میں 2005ء کے ان دہشت گردانہ حملوں کے بعد کی گئی تھی، جن میں مجموعی طور پر 52 افراد مارے گئے تھے۔
م م / ع ا (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔