انگیلامیرکل دنیا کی طاقتور ترین خاتون: فوربز
20 اگست 2009امریکی جریدے ’فوربز‘ کی اس تازہ ترین فہرست میں انگیلا میرکل ایک بار پھر بازی لے گئیں۔ جرمن چانسلر کی فوربز فہرست میں مسلسل چوتھے سال تک پہلے نمبر پر موجودگی ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ان کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ستمبر میں ہونے والے پالیمانی انتخابات کے لئے ملک کے کونے کونے میں زبردست تشہیری مہم شروع کر رکھی ہے۔
فوربز میگزین نے 55 سالہ میرکل کو موجودہ عالمی معاشی بحران سے جرمنی کو نکالنے، ملک میں صحت اور ٹیکس کے نظام میں خرابیوں کو دور کرنے اور یورپی یونین کے بجٹ میں روز بروز اضافے پر سخت پالیسی اپنا کر روکنے کے لئے کی گئی کوششوں کو سراہتے ہوئے انہیں اپنی لسٹ میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔
اس فہرست میں امریکی ادارے فیڈرل ڈیپوزٹ انشورنس کارپوریشن کی چیئرپرسن شیلا بائیر کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ بائیر کو عالمی مالیاتی بحران کے پیشِ نظر اس سال 77 بینکوں کو بند کروانے کا کام سونپا گیا تھا، جسے انہوں نے بخوبی پورا کیا۔
پیپسی کولا کی سربراہ اندرا نوئی اور برطانوی مائننگ کمپنی Anglo American plc کی مالکہ سنتھیا کیرل تیسر ے اور چوتھے نمبر پر آئیں۔
امریکی خاتون اوّل میشائل اوباما اس سال فوربز میگزین کی لسٹ میں پہلی دفعہ شامل کی گئیں، تاہم وہ چالیسویں نمبر پر رہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن گزشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ نمبر پیچھے ہوکر بتیسویں نمبر پر، انڈین نیشنل کانگریس کی صدر سونیا گاندھی تیرہویں، ملکہء برطانیہ بیالیسویں اور بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اٹھہترویں پوزیشن حاصل کی۔
اس لسٹ میں 27 ایسی خواتین کے نام ہیں جو دنیا کی بڑی کمپنیوں کی مالک ہیں جبکہ 10 ایسی خواتین بھی اس فہرست کا حصہ ہیں جو مختلف ریاستوں اور مملکتوں کی سربراہان ہیں۔ اس فہرست کی ٹاپ ٹین خواتین میں چھ امریکی ہیں جبکہ باقی چار کا تعلق فرانس، برطانیہ، سنگاپور اور جرمنی سے ہے۔
دنیا کی 100 طاقتور ترین خواتین کی اس فہرست کو مرتب کرنے کے طریقے اور پیمانے کے بارے میں فوربز میگزین کی شانا شوئنبرگ کہتی ہیں: ’’اس لسٹ کو مرتب کرنے کے لئے ہم دنیا بھر سے سینکڑوں خواتین کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ان کو ایک دوسرے کے مقابل رکھتے ہیں اور یہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں سے کون اپنے کام اور اثر و رسوخ کے باعث دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور تصور کیا جاتا ہے۔ ان خواتین میں سے زیادہ تر کا تعلق بزنس یا سیاست سے ہوتا ہے۔‘‘
رپورٹ: انعام حسن
ادارت : گوہر نذیر