اس سال موسم خزاں میں اپنے عہدے سے رخصت ہونے والی جرمن چانسلر انگیلا میرکل امریکی صدر بائیڈن سے ماحولیاتی تبدیلیوں اور دو طرفہ تعلقات سمیت کئی اہم موضوعات پر بات چیت کے لیے امریکا کا دورہ کریں گی۔
اشتہار
واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ صدر جو بائیڈن کئی اہم امور پر بات چيت کے لیے 15 جولائی کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا استقبال کریں گے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا کہ میرکل کا بائیڈن کے دور صدارت میں یہ پہلا سرکاری دورہ 'امریکا اور جرمنی کے مابین گہرے تعلقات کی توثیق‘ کرے گا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان کووڈ انیس کی عالمی وبا پر قابو پانے اور تیز رفتار ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے جیسے امور بات چيت کے مرکزی موضوعات ہوں گے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ بائیڈن اور میرکل دونوں 'مشترکہ جمہوری اقدار کی بنیاد پر معاشی خوش حالی اور بین الاقوامی سلامتی کو فروغ‘ دیں گے۔
امریکا کی طرف سے میرکل کے اس دورے کا اعلان برطانیہ میں جاری جی سیون سمٹ کے پہلے دن کیا گيا۔
امریکا اور جرمنی کے درمیان نارتھ اسٹریم ٹو گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے کافی اختلافات رہے ہیں۔ یہ پائپ لائن یورپ کو روسی گيس کی ترسیل کے لیے تیار کی جا رہی ہے اور اس کی تعمیر پر تقریباً 11 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔
جرمنی میں امریکی فوج کی تاریخ
امریکی فوج تقریباﹰ 75 سالوں سے جرمنی میں موجود ہے۔ یہ فوج دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں فاتح کے طور پر داخل ہوئی اور کچھ عرصے میں ہی جرمنی کی اتحادی بن گئی۔ لیکن یہ باہمی تعلق ہمیشہ ہموار نہیں رہا ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. May
رمشٹائن ملٹری ائیربیس کا اہم دورہ
جرمنی میں تقریباﹰ 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
سوویت یونین کا کردار
جرمنی میں امریکی فوج دوسری جنگ عظیم کے بعد آنا شروع ہوئی تھی۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جرمنی کو نازیوں سے آزاد کروایا تھا۔ تاہم اس وقت اس کا اتحادی ملک سوویت یونین جلد ہی دشمن بن گیا تھا۔ اس تصویر میں تقسیم شدہ برلن میں امریکی فوج اورسابقہ سوویت یونین کے ٹینک ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایلوس پریسلے
امریکی فوجیوں نے جرمنی کو امریکی ثقافت سے بھی روشناس کروایا۔ کنگ آف ’روک ن رول‘ ایلوس پریسلے نے ایک امریکی فوجی کے طور پر سن 1958 میں جرمنی میں اپنی فوجی خدمات کا آغاز کیا تھا۔ اس تصویر میں پریسلے یہ اپنے مداحوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Heidtmann
جرمنی اب اپنا گھر
پچھلے کچھ برسوں سے امریکی فوج جرمن سر زمین پر مستقل قیام کیے ہوئے ہے۔ امریکی اڈوں کے گردونواح میں امریکی فوج اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی رہائشی مقامات تعمیر کیے گئے ہیں۔ الگ تھلگ رہائش کا یہ نظام امریکی فوجیوں کا جرمنی میں مکمل انضمام میں دشواری کا سبب بھی بنتا ہے۔ سن 2019 میں امریکی فوج نے 17،000 امریکی سویلین شہریوں کو جرمنی میں ملازمت پر رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
امریکا اور جرمن خاندانوں کا تعلق
الگ رہائشی علاقوں کے باوجود، جرمن اور امریکی خاندانوں میں رابطہ رہا ہے۔ فوج کی تعیناتی کے ابتدائی برسوں میں برلن میں موسم گرما اور سرما میں پارٹیوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ امریکی فوج مقامی بچوں کے لیے کرسمس پارٹی کا اہتمام بھی کرتی تھی اور ہر سال جرمنی اور امریکا دوستی کے ہفتہ وار جشن منائے جاتے تھے۔
سرد جنگ کے دوران وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک اہم اسٹریٹیجک مقام بن گیا تھا۔ سن 1969 میں نیٹو ’مینوور ریفورجر ون‘ امریکی اور جرمن فوج کے زیر اہتمام بہت سی مشترکہ جنگی مشقون میں سے ایک تھی۔ اس میں دشمن سوویت یونین اور مشرقی جرمنی سمیت وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ممالک تھے۔
تصویر: picture-alliance/K. Schnörrer
جوہری میزائل پر تنازعہ
سن 1983 میں متلانگن میں امریکی اڈے پر پریشنگ 2 راکٹ لائے گئے تھے۔ جوہری وار ہیڈس سے لیس شدہ یہ راکٹس ایک سیاسی مسئلہ بن گئے تھے۔ امن کے خواہاں سرگرم کارکنان ان میزائلوں کے خلاف تھے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں میں مشہور شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
راستے جدا
تقریباﹰ20 سال بعد یعنی 2003ء میں امریکی صدر جارج بش نےعراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ جنگ کی وجہ عراق کا وہ مبینہ پروگرام تھا، جس کے تحت وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ اس دور کے جرمن چانسلر گیرہارڈ شروڈر نے جرمنی کو اس جنگ سے دور رکھا۔ اور برلن اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpa_pool/A. Altwein
جرمنی پھر بھی اہم
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی سے اپنے بارہزار فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر قائم رہتے بھی ہیں تو بھی جرمنی امریکا کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک ملک رہے گا۔ رمشٹائن کا اڈہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ میں امریکی فضائیہ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ یہاں سے ہی متنازعہ ڈرون مشنز افریقہ اور ایشیا میں پرواز کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
9 تصاویر1 | 9
امریکا نے اس گیس پائپ لائن کو تعمیر کرنے والی توانائی کے شعبے کی روس کی سرکاری توانائی گیس پروم پر ممکنہ پابندی ابھی تک روک رکھی ہے اور صدر بائیڈن اور چانسلر میرکل کو اس تنازعے پر اگلے تین ماہ کے اندر اندر کسی سمجھوتے تک پہنچنا ہو گا۔
اس پائپ لائن کی تنصیب سے وسطی اور مشرقی یورپی ریاستوں کو بائی پاس کیا جا رہا ہے، یعنی یہ پائپ لائن سلوواکیہ اور پولینڈ سے نہیں گزرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ ان ممالک کو اس مد میں کوئی فیس بھی ادا نہیں کی جائے گی۔ مزید یہ کہ اس پائپ لائن کے ذریعے روس گیس کی درآمد کرنے کے اعتبار سے یورپ کے اہم ترین ملک جرمنی کو براہ راست گیس مہیا کر سکے گا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں اس گیس پائپ لائن منصوبے کو 'ناقابل قبول‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ جرمنی روس کا 'قیدی‘ بنتا جا رہا ہے۔
جو بائیڈن کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد اب تک جاپان اور جنوبی کوریا کے حکمرانوں نے ہی وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے اس دور میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل وائٹ ہاؤس کا دورہ کرنے والی پہلی بڑی عالمی رہنما ہوں گی۔