انگیلا میرکل ترکی میں، شامی مہاجرین کے کیمپ کا دورہ
23 اپریل 2016چانسلر انگیلا میرکل آج ہفتے کی سہ پہر جنوب مشرقی ترکی کے شہر غازی انتیپ پہنچی تھیں۔ ان کے ہمراہ وفد میں دیگر اہم اہلکاروں کے علاوہ یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹُسک اور یورپی کمیشن کے نائب صدر فرانس ٹِمرمانز بھی شامل ہیں۔ غازی انتیپ کے ہوائی اڈے پر ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولُو نے جرمن رہنما کا استقبال کیا۔ اس موقع پر جابجا بڑے بڑے بینر لگے تھے اور اُن پر درج تھا کہ معزز مہمانوں کو ’دنیا کا سب سے زیادہ مہاجرین والا ملک‘ خوش آمدیدکہتا ہے۔
میرکل نے غازی انتیپ میں چند گھنٹوں کے قیام کے دوران چالیس کلومیٹر کی دوری پر نیزیپ نامی مقام پر مہاجرین کے لیے بنائے گئے ایک کیمپ کا بھی دورہ کیا۔ یہ کیمپ ترکی اور شام کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ میرکل کے دورے کی وجہ سے نیزیپ میں خصوصی سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ اسی ترک قصبے پر شام سے دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے ہفتے کی صبح راکٹ بھی داغے تھے۔
یورپی وفد کے اس کیمپ میں پہنچنے پر چار شامی بچوں نے وفد کی قیادت کو پھول پیش کر کے خوش آمدید کہا۔ اس کیمپ میں پانچ ہزار شامی مہاجرین مقیم ہیں۔
اس دورے کے دوران جرمن چانسلر نے شامی مہاجرین کے بچوں کی بہبود کے لیے ایک خصوصی مرکز کا افتتاح بھی کیا۔ اس مرکز کو یورپی یونین کے فنڈز سے چلایا جائے گا۔ اس مرکز کا بنیادی مقصد شامی مہاجرین کے بچوں کے لیے صحت مندانہ سرگرمیوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اُن کی نفسیاتی بہبود ہے۔ جرمن چانسلر نے اُن کنٹینرز کا بھی دورہ کیا، جن میں اس کیمپ میں مقیم پانچ ہزار سے زائد مہاجرین زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں۔
میرکل غازی انتیپ میں ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولُو کے ساتھ یورپی یونین کے ساتھ طے کردہ ڈیل پر مزید بات چیت کے ساتھ ساتھ ترک حکومت کےخدشات کو بھی رفع کرنے کی کوشش کریں گی۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے گروپوں نے جرمن چانسلر کے نیزیپ کیمپ کے دورے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ایک ایسے کیمپ میں لے جایا گیا، جہاں خاص طور پر بہتر حالات پیدا کیے گئے ہیں۔ ناقدین کے مطابق اس وفد کو اُن مہاجر کیمپوں کی جانب دیکھنا چاہیے جہاں ہزاروں افراد کو ترک حکومت نے اپنے ملک میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔
ترک حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد چانسلر میرکل، ڈونلڈ ٹُسک اور ٹِمرمانز غازی انتیپ یونیورسٹی میں ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب کریں گے۔ جرمن چانسلر کے غازی انتیپ پہنچنے پر سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔ وہ جس قافلے کی صورت میں وہاں سے روانہ ہوئیں، اُس میں پہلی اور آخری سکیورٹی گاڑیوں کی چھتوں پر ماہر نشانچی بیٹھے ہوئے تھے۔
اس سے قبل میرکل کے ترکی روانہ ہونے پر جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا، جس میں ترکی میں آزادئ اظہار کی خراب صورتحال پر برلن حکومت کے موقف کو بیان کیا گیا تھا۔ بیان کے مطابق نومبر سن 2015 سے ترکی میں پریس فریڈم کی حالت مسلسل خراب ہوئی ہے۔ اب تک انقرہ حکومت انتیس صحافیوں کو گرفتار کر چکی ہے۔