جرمن چانسلر نے اپنے آسٹریائی ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں اتفاق کیا ہے کہ یورپی یونین میں مہاجرین کی آمد کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے جائیں گے۔ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپی رہنماؤں کو مسلسل دباؤ کا سامنا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ان کے آسٹریائی ہم منصب سباستیان کرس نے اتفاق کر لیا ہے کہ یورپ میں مہاجرین کی آمد کو روکنے کی خاطر متعدد اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مہاجرین کے بحران کے حل کی خاطر یہ فیصلہ کیا ہے۔
میرکل اور کرس نے اتوار کے دن ملاقات میں مہاجرین کے بحران کے علاوہ دو طرفہ باہمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ تاہم میڈیا رپورٹوں کے مطابق آسٹریائی چانسلر اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مابین ہونے والی اس ملاقات میں مہاجرین کے بحران کو زیادہ توجہ دی گئی۔ اس ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے کہا کہ یورپ میں ’بے قاعدہ مہاجرت‘ کا سلسلہ روکنے کی خاطر مشترکہ کوشش کی جائے گی۔
میرکل اور کرس نے کہا کہ بالخصوص افریقی ممالک میں مہاجرت کے اسباب اور وجوہات کو ختم کرنے کی خاطر ایک مربوط حکمت عملی بنائی جائے تاکہ وہاں شورش اور تنازعات کی وجہ سے لوگ مہاجرت پر مجبور نہ ہوں۔ ساتھ ہی ان دونوں رہنماؤں نے یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ینکر کے اس منصوبے پر بھی اپنی حمایت کا اظہار کر دیا، جس کے تحت سن دو ہزار بیس تک فرونٹکس اسٹاف کی تعداد دس ہزار کر دی جائے گی۔
واضح رہے کہ ماضی میں میرکل اور کرس بالخصوص مہاجرین بحران کے حل پر شدید اختلافات رکھتے تھے۔ مہاجرت مخالف آسٹریائی چانسلر کرس کا البتہ کہنا ہے کہ اب انگیلا میرکل کے موقف میں لچک پیدا ہوئی ہے۔ برلن حکومت کے موقف میں اس لچک کے تناظر میں جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی طرف سے پیدا کردہ دباؤ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل پیر کے دن متوقع طور پر الجزائر کا دورہ کر رہی ہیں۔ اس دورے کے دوران بھی مہاجرین کا معاملہ اہم ایجنڈا ہو گا۔ دوسری طرف آسٹریائی چانسلر سباستیان کرس پیر کے دن ہی پیرس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے ملیں گے۔ یورپی یونین کی سربراہی سمٹ آئندہ ہفتے سالزبرگ میں منعقد ہو رہی ہے، جس کی تیاری کا سلسلہ جاری ہے۔ یورپی رہنماؤں کے ان دوروں اور ملاقاتوں کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
ع ب / اا / خبر رساں ادارے
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔