ایک ایسے وقت جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی فنڈنگ روک دی ہے، جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ادارے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
جرمن چانسلرانگیلا میرکل نے صحت سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے 'ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن' (ڈبلیو ایچ او) کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ''عالمی سطح پر وسیع پیمانے کا رد عمل ہی اس وبائی بیماری کے خاتمے کا واحد راستہ ہے۔''
چند روز قبل ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ اوپر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام رہنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کی فنڈنگ روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفان سیبرٹ نے بتایا کہ ایسے مرحلے میں جب عالمی ادارہ صحت تباہ کن کووڈ انیس جیسی وبا سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے، جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا، '' چانسلر کا اس بات پر زور ہے کہ اس وبائی مرض کو صرف مضبوط اور مربوط بین الاقوامی ردعمل سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔ اور اسی لیے انہوں نے ڈبلیو ایچ او اور اس سے وابستہ دیگر متعدد اداروں کی مکمل حمایت کرنے کی بات کہی ہے۔''
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ روکنے کے فیصلے ایک روز بعد ہی جی سیون رہنماؤں کی ویڈیو کانفرنس کال کے دوران جرمن چانسلرانگیلا میرکل نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ جی سیون کی میٹنگ میں شامل دیگر رہنما بھی امریکی صدر کے ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ روکنے کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں اور میٹنگ کے دوران بظاہر ان پر نکتہ چینی کرتے نظر آئے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو کا کہنا تھا کہ اٹلی کے وزیراعظم اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون سمیت میٹنگ میں شامل دیگر رہنماؤں نے عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے کثیرالجہتی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔جسٹن ٹرڈیو نے کہا، ''ڈبلیو ایچ او اس تعاون اور کوآرڈینیشن کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہم یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی یہ بھی بہت اہم ہے کہ ہم مربوط و ہم آہنگ رہیں اور آگے بڑھنے کے لیے ہمیں اسی راستے کو اختیار کرنا ہوگا۔ کینیڈا تو یقینی طور پر یہی کرنے جا رہا ہے۔''
لیکن اس میٹنگ حوالے سے وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کی گفتگو وبائی مرض سے متعلق ''ڈبلیو ایچ او کی اپروچ میں شفافیت کی کمی اور اس میں پائے جانے والی دائمی بدنظمی پر مرکوز تھی۔'' اس کے مطابق جی سیون کے رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ ادارے کا مکمل جائزہ لینے اور اس کے کام کاج کے طریقہ کار میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔
بدھ پندرہ اپریل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ اوکو سالانہ دی جانے والی تقریباً چالیس کروڑ امریکی ڈالر کی امداد کو فوری طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ٹرمپ کا الزام ہے کہ عالمی ادارہ صحت، ''صاف و شفاف انداز میں اور مناسب وقت پر نہ صرف معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہا بلکہ اچھی طرح سے اس کی جانچ اور انہیں شیئر کرنے میں بھی وہ ناکام رہا۔“
امریکی صدر کے اس فیصلے پر یورپ میں خاصی نکتہ چینی ہوئی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا ہے کہ اس موقع پر فنڈ روکنے کا اعلان بالکل ایسا ہی جیسے، ''دوران پرواز ہی پائلٹ کو اٹھا کر جہاز سے باہر پھینک دیا جائے۔ اس موقع پر ڈبلیو ایچ او کے کام کاج اور اس کی اہمیت پر سوال اٹھانا قطعی طور پر لایعنی بات ہے۔'' انہوں نے کہا کہ اس وبا کے خلاف لڑائی میں ڈبلیو ایچ او ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔
عالمی سطح پر کورونا وائرس کی وبا سے اب تک ایک لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور بیس لاکھ سے زیادہ لوگ اب بھی اس وبا میں مبتلا ہیں۔ کووڈ انیس کی وبا سے جہاں بین الاقوامی سطح پر صحت کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے وہیں سماجی اور معاشی سطح پر بھی اس کے دور رس اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز،اے پی)
کورونا سے جرمنی کو درپیش مشکلات
جرمنی میں نئے کورونا وائرس کے مریض تقریباً پندرہ سو ہیں۔ معمولات زندگی شدید متاثر ہو چکا ہے۔ خالی دکانیں، تمائشیوں کے بغیر فٹ بال میچز اور ثقافتی تقریبات پر پابندیاں۔ جرمنی میں روزمرہ کی زندگی کیسے گزاری جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
عطیات میں کمی
خوف و گھبراہٹ کے شکار صارفین کی وجہ سے سپر مارکیٹس خالی ہو گئی ہیں۔ جرمن شہریوں نے تیار شدہ کھانے اور ٹوئلٹ پیپرز بڑی تعداد میں خرید لیے ہیں۔ ٹافل نامی ایک امدادی تنظیم کے یوخن بروہل نے بتایا کہ اشیاء کی قلت کی وجہ سے کھانے پینے کی عطیات بھی کم ہو گئے ہیں۔ ’ٹافل‘ پندرہ لاکھ شہریوں کو مالی اور اشیاء کی صورت میں امداد فراہم کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Matzka
خالی اسٹیڈیم میں میچز
وفاقی وزیر صحت ژینس شپاہن نے ایسی تمام تقریبات کو منسوخ کرنے کا کہا ہے، جس میں ایک ہزار سے زائد افراد کی شرکت متوقع ہو۔ جرمن فٹ بال لیگ نے اعلان کیا کہ فٹ بال کلبس اور ٹیمز خود یہ فیصلہ کریں کہ انہیں تمائشیوں کی موجودگی میں میچ کھیلنا ہے یا نہیں۔ بدھ کے روز ایف سی کولون اور بوروسیا مؤنشن گلاڈ باخ کا میچ خالی اسٹیڈیم میں ہوا۔ اسی طرح کئی دیگر کلبس نے بھی خالی اسٹیڈیمز میں میچ کھیلے۔
تصویر: picture alliance/dpa/O. Berg
ثقافتی تقریبات بھی متاثر
جرمنی میں ثقافتی سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ متعدد تجارتی میلے اور کنسرٹس یا تو منسوخ کر دیے گئے ہیں یا انہیں معطل کر دیا گیا ہے۔ لائپزگ کتب میلہ اور فرینکفرٹ کا میوزک فیسٹیول متاثر ہونے والی تقریبات میں شامل ہیں۔ اسی طرح متعدد کلبس اور عجائب گھروں نے بھی اپنے دروزاے بند کر دیے ہیں۔ ساتھ ہی جرمن ٹیلی وژن اور فلم ایوارڈ کا میلہ ’’ گولڈن کیمرہ‘‘ اب مارچ کے بجائے نومبر میں ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
اسکول ابھی کھلے ہیں
اٹلی میں تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں جبکہ جرمنی میں زیادہ تر اسکول و کالج کھلے ہوئے ہیں۔ جرمنی میں اساتذہ کی تنظیم کے مطابق ملک بھر میں فی الحال کورونا سے متاثرہ اسکولوں اور کنڈر گارٹنز کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: picture-alliance/SvenSimon/F. Hoermann
غیر ملکیوں سے نفرت
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کی وجہ سے غیر ملکیوں سے نفرت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چینی ہی نہیں بلکہ دیگر مغربی ممالک جیسے امریکا اور اٹلی کے مقابلے میں ایشیائی ریستورانوں اور دکانوں میں گاہکوں کی واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ اسی طرح ایشیائی خدوخال رکھنے والے افراد کو نفرت انگیزی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لائپزگ میں جاپانی مداحوں کے ایک گروپ کو جرمن فٹ بال لیگ بنڈس لیگا کا ایک میچ دیکھنے نہیں دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ہوائی اڈے مسافروں نہیں جہازوں سے بھر ے
جرمن قومی ایئر لائن لفتھانزا نے کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی پروازوں کی گنجائش میں پچاس فیصد تک کی کمی کر دی ہے۔ لفتھانزا کے ڈیڑھ سو جہاز فی الحال گراؤنڈ ہیں جبکہ مارچ کے آخر تک سات ہزار ایک سو پروازیں منسوخ کر دی جائیں گی۔ اس کمپنی نے کہا ہے کہ موسم گرما کا شیڈیول بھی متاثر ہو گا۔ بتایا گیا ہے کہ ٹکٹوں کی فروخت میں کمی کی وجہ سے فلائٹس کم کی گئی ہیں۔ لوگ غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
لڑکھڑاتی کار ساز صنعت
چین میں کار ساز ی کے پلانٹس جنوری سے بند ہیں اور فوکس ویگن اور ڈائلمر جیسے جرمن ادارے اس صورتحال سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے والی ایسی کئی جرمن کمپنیاں بھی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں، جو چین سے اضافی پرزے اور خام مال درآمد کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Meyer
سرحدی نگرانی
اٹلی اور فرانس کے بعد جرمنی یورپ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اس وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پولینڈ اور جمہوریہ چیک نے چیکنگ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس دوران جرمنی سے آنے والی گاڑیوں کو اچانک روک کر مسافروں کا درجہ حرارت چیک کیا جا رہا ہے۔ پولینڈ نے ٹرین سے سفر کرنے والوں کے لیے بھی اس طرح کے اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔