حسن عمر کو یونان اور مقدونیہ کے مابین سرحد عبور کرنے میں چار گھنٹے لگے۔ ناہموار اور گدلے پانی والے راستوں کو عبور کرنے میں کئی اجنبی افراد نے اس کی وہیل چیئر دھکیل کر مدد کی، لیکن اس کی سب کوششیں بیکار گئیں۔
اشتہار
دن کا اختتام ہوا تو چلنے پھرنے سے معذور حسن عمر مقدونیہ کے بجائے واپس یونان پہنچ چکا تھا۔ ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح جب وہ غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے مقدونیہ کی حدود میں داخل ہوا تو مقدونیہ کی فوج نے انہیں تحویل میں لے کر واپس یونان بھیج دیا۔
عمر کا کہنا تھا، ’’وہاں فوج دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ وہ لوگ ہمارے ساتھ نہایت سرد مہری سے پیش آئے۔ مجھے یوں لگا جیسے ہمارا واسطہ انسانوں سے نہیں بلکہ موت کی مشینوں سے ہے۔‘‘
عمر کا تعلق شورش زدہ ملک عراق سے ہے، وہاں سے نکلتے وقت بھی لوگوں نے اس معذور شخص کی مدد کی تھی۔ عمر کو اب بھی یاد ہے کہ کیسے ایک شخص نے اسے پانچ میل تک اپنے کندھوں پر اٹھا کر پہاڑی راستہ عبور کرایا تھا۔
ہزاروں تارکین وطن اپنے گھروں سے تو جرمنی اور دیگر مغربی یورپ کی جانب نکلے تھے لیکن یونان اور مقدونیہ کے مابین سرحد بند ہونے کے بعد وہ یونان میں محصور ہو کر رہ گئے۔
افغان مہاجرین کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا
02:53
پير کے روز پندرہ سو سے زائد تارکین وطن متبادل راستوں سے مقدونیہ کی حدود میں داخل ہونے کے لیے کیمپ سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ خاردار تاروں سے بچتے، غیر عمومی اور دشوار راستوں سے ہوتے ہوئے جب وہ مقدونیہ کی حدود میں داخل ہوئے تو مقدونیہ کی فوج ان کی منتظر تھی۔
مقدونیہ کی پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ سرحد عبور کرنے والے زیادہ تر تارکین وطن کو ٹرکوں میں سوار کر کے واپس یونان بھیج دیا گیا ہے۔ یونانی حکام کے مطابق وہ واپس لوٹنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کے بارے میں تصدیق نہیں کر سکتے۔
تاہم سرحد عبور کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے تارکین وطن نے اس بارے میں تفصیلات بتائی ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ایک شامی تارک وطن کا کہنا تھا کہ سرحد عبور کرنے کے فوراﹰ بعد مقدونیہ کی فوج نے انہیں حراست میں لے لیا جس کے بعد انہیں پچیس سے پچاس افراد تک کی ٹولیوں میں تقسیم کر کے ٹرکوں میں سوار کیا اور یونان کی سرحد پر لا کر چھوڑ دیا۔ عبدو نامی شامی تارک وطن کے مطابق سرحد پر اتار کر ’انہوں نے کہا بھاگو، ہم بھاگ کھڑے ہوئے۔‘
یونان میں پھنسے ہزاروں تارکین وطن جرمنی اور دیگر ممالک تک پہنچنے کے لیے متبادل راستے تلاش کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرتے ہوئے تین افراد دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔
2016ء کے ورلڈ پریس ایوارڈ میں ہجرت اور نقل مکانی کا موضوع سرفہرست رہا۔ جنگوں اور غربت کے ہاتھوں مجبور لاکھوں مہاجرین کے یورپ کی جانب سفر کے دوران کئی ایسے اندوہناک مناظر دیکھنے میں آئے جو انسانیت کے لیے باعث شرمندگی ہیں۔
تصویر: Mary F. Calvert
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
ہنگری کی سرحد پر نصب خاردار تاروں کے نیچے سے ایک نوزائیدہ بچے کو دوسری طرف منتقل کرتے ہوئے تارک وطن کی اس تصویر کا عنوان ’نئی زندگی کی امید‘ ہے۔ اس تصویر کو پہلا انعام دیا گیا۔ آسٹریلوی صحافی وارن رچرڈسن نے یہ تصویر 28 اگست 2015ء کو اپنے کیمرے میں محفوظ کی تھی۔
تصویر: Warren Richardson
سمندر میں انسانوں کا سمندر
روس کے سرگئی پونوماریف نے یہ تصویر دی نیویارک ٹائمز کے لیے یونانی جزیرے لیسبوس میں کھینچی تھی۔ ترک ساحلوں سے یونانی جزیروں تک کے اس مختصر مگر پرُخطر راستے میں اب تک سمندر ہزاروں انسانوں کو نگل چکا ہے۔
تصویر: Sergey Ponomarev/The New York Times
کم سنی، مسافت اور بے وطنی
پلاسٹک کی برساتی اوڑھے ایک پناہ گزین بچی سربیا میں تارکین وطن کے ایک کیمپ میں اپنی رجسٹریشن کی منتظر ہے۔ سربیا سے تعلق رکھنے والے ماٹک زورمان نے یہ تصویر سات اکتوبر 2015ء کو کھینچی تھی۔ یورپ کی جانب گامزن تارکین وطن کے ہمراہ لاکھوں بچے بھی دشوار گزار ’بلقان روٹ‘ سے گزر کر جرمنی اور دیگر ممالک پہنچے تھے۔
تصویر: Matic Zorman
طوفاں میں گھر گیا ہوں کہ طوفاں کا جزو ہوں؟
آسٹریلوی شہری روہان کیلی کی کھینچی گئی یہ تصویر چھ نومبر 2015ء کو کھینچی گئی تھی۔ سڈنی کے ساحل پر لی گئی اس تصویر میں بادلوں کا سونامی ساحل کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے لیکن ایک خاتون اس سے بے خبر ساحل پر لیٹ کر اپنی کتاب پڑھ رہی ہے۔
تصویر: Rohan Kelly/Daily Telegraph
داعش کا سولہ سالہ جہادی
برازیل سے تعلق رکھنے والے ماؤریسیو لیما کی اس تصویر کو ’جنرل نیوز‘ کے زمرے میں پہلا انعام دیا گا۔ تصویر میں نام نہاد ’دولت اسلامیہ‘ سے تعلق رکھنے والے ایک سولہ سالہ جھلسے ہوئے لڑکے کا علاج کیا جا رہا ہے۔ پس منظر میں کردستان ورکرز پارٹی کے سربراہ کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: Mauricio Lima/The New York Times
جنسی تشدد کی شکار امریکی فوجی
21 مارچ 2014 کو کھینچی گئی اس تصویر کو طویل مدتی پراجیکٹ کے زمرے میں ایوارڈ دیا گیا۔ یہ تصویر اکیس سالہ امریکی خاتون فوجی نتاشا شوئے کی ہے۔ نتاشا نے دوران ٹریننگ اپنے سارجنٹ کی جانب سے جنسی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعے کی اطلاع حکام کو دی تھی۔