پشاور میں چچا نے اپنی بھتیجی کو مبینہ طور پر اس لیے گولی مار کر ہلاک کر دیا کیوں کہ وہ شور مچا رہی تھی۔ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو وائرل ہوگئی جس میں گولی مارنے کی آواز سنی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance / ZB
اشتہار
پاکستان صوبے خیبر پختونخواہ میں دو روز قبل ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کے ارباب روڈ پر ایک گھر میں ہونے والی لڑائی ایک سات سال بچی کی جان لے گئی۔ پشاور میں ایک نیوز چینل 'آج‘ کی بیورو چیف فرزانہ علی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس بچی کے والد کا نام حیات اللہ ہے۔ اس کی بچی کا نام ایشال حیات جو دیگر بچوں کے ساتھ گھر کے صحن میں کھیل رہی تھی۔ بچوں کے شور مچانے پر اوپر کی منزل پر رہنے والے چچا کو غصہ آیا اور اس نے بچی پر فائر کر دیا۔
بچی کے والد حیات اللہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ اس کے خاندان اور اس کے بھائی کے درمیان اکثر اس کی شادی کے مسئلے پر لڑائی جھگڑا رہتا تھا۔ اطلاعات کے مطابق بچی کا چچا فرار ہو گیا ہے۔ اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر سینکڑوں مرتبہ شیئر کی جا چکی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم، 'اوئیر گرلز‘ کی بانی گلالئی اسماعیل کا کہنا تھا،''پشاور میں ایک اور لڑکی ایک ایسے ہی مرد کے ہاتھوں ماری گئی جو بچی کے کھیلنے کی آواز برداشت نہ کر پایا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم بچوں کی کیسے پرورش کر رہے ہیں، جو بڑے ہو کر اتنے بے حس ہو جاتے ہیں۔''
نگہت داد نے اس بارے میں ٹویٹ میں کہا،''کیوں ان خبروں پہ کبھی کوئی عذاب کیوں نہ آیا ؟‘‘
دوسری جانب سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن نے بھی گھریلو تشدد میں اضافہ کیا ہے۔ فرزانہ کہتی ہیں کہ جب کوئی آفت آتی ہے تو ذہنی دباؤ بھی ساتھ لاتی ہے۔ ڈاکٹر بشیر احمد خیبر ٹیچنگ ہسپتال، خیبر پختونخواہ میں ماہر امراض ہیں۔ انہوں نے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ انہیں ذہنی دباؤ سے متعلق روزانہ ساٹھ سے ستر فون کالز موصول ہو رہی ہیں۔
پاکستان کی وزارت برائے انسانی حقوق کی جانب سے بھی ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن اور قرنطینہ میں رہائش خواتین اور بچوں کے لیے گھریلو تشدد کا سبب بن سکتی ہے۔ متاثرین 1099 یا 03339085709 پر کال یا واٹس ایپ کر کے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔
بچپن سے محروم بچے
سیو دی چلڈرن نامی تنظیم نے یکم جون کو بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس کے مطابق دنیا بھر میں کم از کم 730 ملین بچے اپنے بچپن کے سنہری دور سے محروم رہ جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Sansar
در بدر کی ٹھوکریں
غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنگوں اور پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے بہت سے بچوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔ بچیوں کی کم عمری میں شادی اور حاملہ ہونے کے علاوہ خراب صحت بھی اس محرومی کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بچپن کہتے کسے ہیں؟
اس رپورٹ میں بچپن سے مراد وہ وقت ہے، جب بچے صرف کھیلتے کودتے ہیں اور انہیں مختلف چیزیں سکھانے کا عمل شروع کیا جاتا ہے، تاکہ بچوں کی شخصیت تعمیر ہو سکے۔
اس تنظیم کی سربراہ ہیلے تھورننگ شمٹ کے مطابق، ’’بچے غربت اور امتیازی سلوک کی چکی میں پس کر اپنا بچپن کھو رہے ہیں۔‘‘ ہر لڑکی اور ہر لڑکے کو بچپن میں محبت اور تحفظ کے احساس کے علاوہ مکمل دیکھ بھال کا حق بھی حاصل ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Nath
سب سے زیادہ متاثر بچے
End of Childhood یا ’بچپن کا خاتمہ‘ کے عنوان سے تیار کی جانے والی 172 ممالک کی اس فہرست میں مغربی اور وسطی افریقی ممالک سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ ان میں بھی نائجر، انگولا اور مالی کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Sanogo
یورپی بچے خوش قسمت
ناروے، سلووینیا، فن لینڈ، ہالینڈ اور سویڈن کے بچے ہیں، جو اپنے بچپن کے سنہری دور سے سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس فہرست میں جرمنی دسویں مقام پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Pilick
خطرناک مشقت
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 168 ملین بچے ایسے ہیں، کام کرنا جن کی مجبوری ہے اور ان میں سے بھی 85 ملین کو انتہائی سخت اور خطرناک حالات میں روزی کمانا پڑتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ouoba
اکثریت ترقی پذیر ممالک میں
سیو دی چلڈرن کے مطابق بچپن سے محروم کر دیے جانے والے ان تقریباً 730 ملین بچوں کی زیادہ تر تعداد کا تعلق ترقی پذیر ممالک کے پسماندہ خاندانوں سے ہے۔ ان علاقوں میں بچوں کو بنیادی سہولیات کے شدید فقدان کا سامنا ہے۔