اوباما۔نیتن یاہو ملاقات، ’ایران پر اختلافات برقرار‘
6 مارچ 2012
دونوں رہنماؤں نے پیر کو واشنگٹن میں ملاقات کی۔ اس موقع پر باراک اوباما نے اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے اپیل کی کہ یروشلم وقت دے تاکہ ایران کے جوہری پروگرام پر قابو پانے کے لیے پابندیاں اثر دکھا سکیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس میں بات چیت کے دوران دونوں رہنماؤں نے ایران کے جوہری منصوبوں کے حوالے سے مشترکہ مؤقف پیش کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ان کے بیانات سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے طریقہ کار پر باہمی اختلافات ظاہر ہوتے ہیں۔
بند کمرے میں ہونے والے مذاکرات سے باخبر ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ نیتن یاہو نے باراک اوباما کو یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا فیصلہ ابھی نہیں کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ انہیں عسکری کارروائی کا حق حاصل ہے۔
اوباما نے کہا: ’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس مسئلے کے سفارتی حل کا راستہ ابھی تک کھلا ہے۔‘‘
نیتن یاہو نے کہا: ’’اسرائیل کے وزیر اعظم کی حیثیت سے میری سب سے بڑی ذمہ داری اس بات کی یقین دہانی کرانا ہے کہ اسرائیل اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرتا رہے۔‘‘
اسرائیلی اور امریکی رہنماؤں کے درمیان پیر کی بات چیت سے ایسے کوئی اشارے سامنے نہیں آئے، جن سے اندازہ لگایا جائے کہ اوباما نے ایران کے خلاف، جو اسرائیل کو تباہ کرنے کی بات کر چکا ہے، رویہ پہلے سے زیادہ سخت بنا لیا ہے یا متحمل اسرائیلی رویے کے لیے ان کی اپیل کافی ہو گی، جو ایران کے خلاف کسی طرح کے اسرائیلی عسکری منصوبے کو مؤخر کر سکے۔
روئٹرز کے مطابق اس کے باوجود دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ ملاقات اوول آفس میں گزشتہ برس مئی میں ہونے والی بات چیت کے مقابلے میں مثبت دکھائی دی۔ اُس وقت نیتن یاہو نے اوباما کو یہودیوں کی تاریخ پر لیکچر دیا تھا اور اسرائیل و فلسطینیوں کے درمیان امن کے لیے ان کے مؤقف کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
تاہم اس مرتبہ اوباما اور نیتن یاہو کا رویہ قدرے مثبت دکھائی دیا۔ جس وقت صحافی کمرے میں داخل ہوئے تو وہ دونوں ایک اچھے ماحول میں گفتگو کر رہے تھے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف بلوچ