اوباما: اسٹیٹ آف دی یونین خطاب، تبصرہ
13 فروری 2013امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے اس خطاب میں چند ایک موضوعات پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے تقریباً وہ تمام داخلی سیاسی موضوعات گِنوا دیے، جن میں بہتری یا اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ اس بات کی بھی ایک علامت تھی کہ ملک کے حالات اُتنے بھی اچھے نہیں ہیں، جتنے کہ اُنہوں نے اپنی تقریر کے آغاز پر بتائے۔
اوباما نے کہا کہ بجٹ کے اخراجات کو کم کر کے ایک ایسی سطح پر لایا جانا چاہیے، جہاں اُن کے لیے آسانی سے مالی وسائل فراہم ہو سکیں، بزرگ امریکی شہریوں کے لیے ہیلتھ انشورنس کے شعبے میں اصلاحات لائی جائیں اور ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ٹیکس چوری کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جائیں۔ امریکی صدر کے مطابق خصوصاً صنعتی شعبے میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جانے چاہییں، تعلیم و تربیت کے شعبے کو مزید مستحکم بنایا جانا چاہیے اور موسمیاتی تبدیلیوں کا راستہ روکا جانا چاہیے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اقتصادی ڈھانچے میں بہتری، تارکین وطن سے متعلق پالیسیوں میں اصلاحات اور اسلحے سے متعلق قوانین کو سخت بنانے کی بھی وکالت کی۔
ان سب باتوں میں سے کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ اوباما نے اگر کوئی ٹھوس بات کی تو وہ یہ تھی کہ کم از کم اجرت بڑھا کر 9 ڈالر فی گھنٹہ کی جانی چاہیے یا یہ کہ اگر ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے سلسلے میں کانگریس تعاون پر آمادہ نہ ہوئی تو وہ صدارتی فرمان جاری کرتے ہوئےاقدامات کریں گے۔
دیکھا جائے تو یہی تو مسئلہ ہے کہ کانگریس میں ایوان نمائندگان پر ری پبلکنز کا غلبہ ہے، جو مفاہمت پر آمادہ نہیں ہیں۔
اوباما کے اس خطاب میں خارجہ پالیسی کا کردار محض ضمنی نوعیت کا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان سے اگلے سال 34 ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا اور 2014ء کے اواخر تک افغانستان سے امریکی دستوں کا انخلاء مکمل ہو جائے گا۔
امریکی صدر نے واضح کیا کہ مستقبل میں خواہ دہشت گرد گروہ القاعدہ کے خلاف جنگ ہی کا معاملہ کیوں نہ ہوا، فوجی دستے بھیجنا آخری حربہ ہوا کرے گا۔ دیگر تمام امریکی صدور کی طرح اوباما نے بھی، جو اگلے مہینے اسرائیل کے دورے پر جانے والے ہیں، اس ریاست کی سلامتی پر زور دیا۔ اوباما نےشمالی کوریا کے تازہ ایٹمی تجربے کا ذکر کرتے ہوئے اس کمیونسٹ ملک کو تنبیہ جاری کی۔ وہ یہ ذکر کرنا بھی نہیں بھولے کہ وہ اپنے متنازعہ ڈرون پروگرام کو مضبوط قانونی بنیادیں فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے روس کے ساتھ دونوں ممالک کے ایٹمی اسلحے کے ذخائر میں تخفیف کی بھی بات کی۔
C.Hasselbach/aa/zb