اوباما، امریکی بمباری کے ہدف لاؤس کے دورے پر گئے پہلے صدر
6 ستمبر 2016اوباما جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے ایک سربراہ اجلاس میں شرکت کے سلسلے میں لاؤس کے دارالحکومت وینتیان میں ہیں، جہاں انہوں نے منگل کو صدارتی محل میں 78 سالہ سابق انقلابی لیڈر بونہانگ ووراچیت کے ساتھ ملاقات کی، جو رواں سال سے ملک کے صدر ہیں۔
اس دورے کے آغاز پر ایک ملٹری بینڈ اور روایتی رقص کے ساتھ اوباما کا استقبال کیا گیا۔ اوباما نے کہا کہ اُن کے اس تاریخی دورے کا مقصد جنگ سے لگے زخموں پر مرہم رکھنا اور امریکا اور لاؤس کے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم بنانا ہے۔
لاؤس ویت نام کا مشرقی ہمسایہ ملک ہے۔ ویت نام جنگ کے دوران کمیونسٹ فورسز کی سپلائی لائن کو تباہ کرنے کی غرض سے امریکی 1964ء سے لے کر 1973ء تک یعنی مسلسل نو سال تک لاؤس پر شدید بمباری کرتے رہے تھے۔ امریکی سیکرٹ سروس سی آئی اے کی قیادت میں لڑی جانے والی اس خفیہ جنگ کا مقصد ویت نام کے کمیونسٹ باغیوں کی مدد کرنے پر لاؤس کو سزا بھی دینا تھا اور لاؤس سے ان باغیوں کو پہنچنے والی مدد کو بھی روکنا تھا۔
لاؤس کئی عشرے گزر جانے کے بعد بھی اس جنگ کے اثرات سے نکل نہیں پایا۔ یہ معاشی طور پر ایک کمزور کمیونسٹ ملک ہے، جہاں امریکی طیاروں سے پھینکے گئے کئی ملین کلسٹر بم آج بھی باقاعدگی کے ساتھ شہریوں کو ہلاک یا زخمی کرنے کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ لاؤس حکومت کے سرکاری بیانات کے مطابق جنگ شروع ہونے سے لے کر 2008ء تک ان بموں کی زَد میں آ کر تقریباً پچاس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
انہی اب تک نہ پھٹنے والے کلسٹر بموں کو ناکارہ بنانے کے لیے وائٹ ہاؤس نے منگل چھ ستمبر کو اعلان کیا کہ لاؤس کو آئندہ تین برسوں کے دوران نوّے ملین ڈالر فراہم کیے جائیں گے۔ اب تک کلسٹر بموں سے متاثرہ علاقے کے صرف ایک فیصد رقبے کو نہ پھٹنے والے بموں سے مکمل طور پر پاک کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
امریکا گزشتہ بیس برسوں کےدوران لاؤس کو مجموعی طور پر ایک سو ملین ڈالر کی امداد دے چکا ہے۔ اگلے تین برسوں میں مزید نوّے ملین ڈالر کی فراہمی کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ امریکا نے اس ملک کے لیے اپنی امداد میں نمایاں طور پر اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لاؤس میں 1975ء سے ایک کمیونسٹ پارٹی آہنی ہاتھوں سے حکومت کرتی چلی آ رہی ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے کے دوران اس حکومت کے امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔