’اوباما مسلمانوں کو یورپ میں بسانے کی سازش کر رہے ہیں‘
شمشیر حیدر19 مئی 2016
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کے چیف آف سٹاف کا کہنا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما اور امریکا یورپ کی جانب غیر قانونی ہجرت کی حمایت اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو یورپ میں آباد کرنا چاہتے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کے چیف آف سٹاف یانوش لازار نے امریکا اور امریکی صدر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کی یورپ کی جانب ہجرت کی حمایت اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ ’وہ یورپ میں زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو آباد کرنا چاہتے ہیں‘۔
یانوش لاراز نے آج انیس مئی بروز جمعرات اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہنگری میں پیدا ہونے والے امریکی سرمایہ کار جارج سوروز صدر اوباما کی یورپ کے لیے ترتیب دی گئی مہاجرین سے متعلق پالیسی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس مبینہ سازش کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہنگری کے اس اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’کچھ امریکی گروہ‘ یورپ کو ’کمزور یا تحلیل کرنے کے درپے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یوں یورپ امریکا کے ساتھ غیر مشروط تعاون کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔‘‘
انیس سو تیس میں پیدا ہونے والے جارج سوروز کے پاس امریکی اور ہنگری کی شہریت ہے اور ان کا شمار دنیا کی تیس امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ کاروباری شخصیت ہونے کے علاوہ انہیں ایک مصنف اور ان کے انسان دوست کاموں کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ سوروز کی ’اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن‘ دنیا بھر میں سماجی تنظیموں کو مالی معاونت فراہم کرنے میں پیش پیش رہتی ہے۔
لازار کا کہنا تھا کہ سوروز ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے امریکا کی آئندہ صدر بننے کی خواہش مند ہیلری کلنٹن کی سرپرست بھی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کے خلاف سرگرم ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما اور ہیلری کلنٹن کا تعلق بھی ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ دونوں اہم امریکی رہنما وکٹور اوربان کو ان کے آمرانہ رویے، سول سوسائٹی اور ہم جنس پرستوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
دوسری جانب ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان کا کہنا ہے کہ ہنگری میں سرگرم سماجی تنظیموں میں سے کئی پیسے لے کر غیر ملکیوں کے لیے کام کرتی ہیں۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔