اوباما کا دورہ مشرق وسطیٰ، امکانات و خدشات
3 جون 2009امریکی صدر باراک اوباما آج سعودی عرب پہنچ رہے ہیں جہاں وہ سعودی حکومت کے ساتھ کئی معاملات پر بات چیت کریں گے۔ توقع کی جارہی ہے کہ سعودی فرماں روا کے ساتھ ان کی ملاقات میں عرب اسرائیل تنازعے پرضرور بات ہوگی۔ موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت کا سخت مؤقف بھی دونوں لیڈروں کی گفتگو کا امکاناً موضوع بن سکتا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر نے سعودی عرب روانگی سے قبل اسرائیلی وزیر دفاع اہود باراک سے بھی ملاقات کی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی وزیر دفاع موجودہ حکومت کے لئے امریکی مؤقف میں لچک کے متمنی ہیں۔ اِسی مناسبت سے سعودی عرب کے دانشوروں کا خیال ہے کہ سخت اسرائیلی رویے کی وجہ سے امن کوششوں کوجو مسلسل دھچکا پہنچ رہا ہے اُس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں ایران کو اپنی پوزیشن بہتر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ لبنان میں شیعہ تنظیم حزبُ اللہ کے ساتھ گہرے مراسم بھی ایرانی پوزیشن کو عرب دنیا میں بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اِس صورت حال میں شاہ عبدُاللہ اور صدر اوباما ریاض میں ایران کے جوہری پروگرام سمیت دوسرے اہم پہلووں پربھی بات کر سکتے ہیں۔
اِس کے علاوہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں کو بھی یقیناً گفتگو کے ایجنڈے پر جگہ مل سکتی ہے۔ اِس حوالے سے امریکی صدر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ سعودی حکومت پر واضح کریں گے کہ خام تیل کی عالمی منڈی میں زیادہ قیمت سعودی حکومت کے مفاد میں نہیں ہے۔ دوسری جانب دو روز قبل سعودی کابینہ نے ایک بار پھر کہا تھا کہ تیل کی عالمی منڈی میں پچھتر ڈالر فی بیرل قیمت انتہائی مناسب ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ عالمی کساد بازاری کے تناظر میں تیل پیدا کرنے والے ملک خام تیل کی قیمت کو مناسب مقام پر رکھنے میں تعاون اور معاونت کریں۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک میں سعودی عرب کا کردار بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اِس کی وجہ یقیناً سعودی عرب میں تیل کے وسیع ذخائر کی موجودگی ہے۔
امریکہ سعودی تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تاریخی اعتبار دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی اور خیر سگالی کا رشتہ تقریباً ساٹھ سالوں پر محیط ہے جس میں سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کو خام تیل کی فراہمی اور جواب میں امریکہ کا سعودی بادشاہت کو قائم رکھنے کا ایک سلسلہ چل رہا ہے۔
اِس دوران دہشت گرد تنظیم القائدہ کی جانب سے اُس کے اہم لیڈر ایمن الظواہری کا آڈیو پیغام جاری کیا گیا ہے جس میں امریکی صدر کے دورہٴ سعودی عرب اور مصر کو مسترد کردینے کا کہا گیا ہے۔ ایمن الظواہری کا تعلق مصرسے ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما چار جون کو جب مصر پہنچیں گے۔ اس سلسلے میں قاہرہ میں انتہائی سخت سکیورٹی کے انتظامات کئے گئے ہیں۔حکومت کی جانب سے لوگوں کو صبح نو بجے سے شام چار بجے تک گھروں میں رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اِس قیام کے دوران امریکی صدر مصر کی حزب مخالف کی کسی پارٹی سے تو ملاقات نہیں کریں گے تاہم قاہرہ یونیورسٹی میں ان کے خطاب کے وقت کالعدم اخوان المسلمون کے پارلیمانی بلاک کے اراکین اپنے لیڈر سعید الکاتینی کے ساتھ مرکزی ہال میں موجود ہوں گے۔ اِسی طرح ایک اور حکومت مخالف ایمن نور کو بھی خطاب سننے کی دعوت دی گئی ہے۔ دوسری جانب مصر کی حزب اختلاف نے صدر اوباما سے اپیل کی ہے کہ وہ ملاقات کے دوران صدر مبارک پر زور دیں کہ وہ ملک کے اندر جمہوری اصلاحات کے عمل کو مزید فروغ دیں۔