اوباما کا پہلا ’سٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب
28 جنوری 2010اوباما کے خطاب میں زیادہ تر توجہ اقتصادیات پر تو مرکوز تھی ہی مگر ایسا تقریباً ناممکن تھا کہ اس میں عراق میں القاعدہ اور افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کا ذکر نہ ہو۔
باراک اوباما کو صدارت کےعہدے پر فائز ہوئے ایک سال ہوگیا۔ صدر بننے سے قبل اوباما نے امریکی عوام سے مختلف شعبوں میں ’تبدیلی‘ لانے کے بہت سارے وعدے کئے۔ امریکہ کے اس پہلے سیاہ فام صدر نے داخلی سطح پر صحت کے شعبے میں اصلاحات، بین الاقوامی سطح پر اقتصادی بحران پر قابو اور افغانستان اورعراق جنگوں میں شدت پسندوں کے خلاف کامیابی کے وعدے کئے، لیکن ایک سال گزرجانے کے بعد زمینی حقائق کچھ زیادہ نہیں بدلے ہیں!
اقتصادی بحران اور بے روزگاری:
اگرچہ بظاہر عالمگیر اقتصادی بحران پر بڑی حد تک قابو پایا جا چکا ہے تاہم امریکہ میں اب بھی کئی سارے خاندان ایسے ہیں، جن کے ابتر معاشی حالات جوں کے توں ہیں جبکہ ملک میں بے روزگاری کی شرح دس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ تازہ عوامی جائزوں کے نتائج کے مطابق اوباما کی مقبولیت اس وقت پچاس فی صد یا اس سے بھی کم ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ 51 فی صد سے زائد امریکی باشندے یہ سمجھتے ہیں کہ اوباما نے معاشی صورتحال میں بہتری پر بہت ہی کم دھیان دیا ہے۔
اوباما کی تقریریں اور زمینی حقائق:
کئی یورپی ماہرین اوباما کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ امریکی صدر اپنی بااثر تقاریر میں جو باتیں کرتے ہیں، انہیں پسند تو کیا جا سکتا ہے لیکن عملی میدان میں وہ جو کچھ کرتے ہیں یا کریں گے، شاید اسے پسند نہیں کیا جاسکتا۔ نوبل امن انعام یافتہ امریکی صدر کے اصلاحاتی ایجنڈے کو ابھی حال ہی میں سب سے بڑا دھچکہ اس وقت لگا جب ریاست Massachussetts میں رپبلکن پارٹی نے سینیٹ سیٹ پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ بیشتر امریکی تجزیہ کاروں کی رائے میں اس وقت صدر اوباما پر اپنی قیادت کی ساکھ بحال کرنے کے حوالے سے زبردست دباوٴ ہے۔
وہ وعدے سب کیا ہوئے؟
اوباما کے کئی سارے وعدے اب تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔ ان میں کیوبا میں قائم قید خانے گوانتانامو کو ایک سال کے اندر اندر بند کرنے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ امریکہ کو پہلے سے مزید محفوظ بنانے کا وعدہ بھی پورا ہوتا نہیں دکھائی دے رہا۔ ایمسٹرڈیم سے ڈیٹرائٹ جانے والی مسافر پرواز پر ناکام حملے کا حالیہ واقعہ ہو یا پھر امریکی میجر ندال حسین کی طرف سے فورٹ ہُڈ میں فائرنگ کا معاملہ، یہ سب کچھ اسی بات کی طرف واضح اشارے کرتے ہیں کہ امریکہ پر مزید حملوں کے منصوبے اب بھی تسلسل کے ساتھ تیار کئے جا رہے ہیں۔ عراق میں آج بھی خودکش حملے اور بم دھماکے ہو رہے ہیں، افغانستان میں اتحادی فوجیوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافے کے باوجود طالبان عسکریت پسند پسپا ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: شادی خان سیف