اوباما کا ڈرون حملے محدود کرنے کا اعلان
24 مئی 2013باراک اوباما نے جمعرات کی شام واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں اس اہم دفاعی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس سے قبل انہوں نے نئے صدارتی رہنما اصولوں پر دستخط بھی کر دیے، جن کے تحت اب ڈرون حملوں کا کنٹرول خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی یا سی آئی اے سے لے کر محکمہء دفاع یا پینٹاگون کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ امریکی ڈرون حملے اب کانگریس کی طرف سے جانچ پڑتال کی زد میں آ سکیں گے۔
پاکستان میں البتہ ان حملوں کا کنٹرول بدستور سی آئی اے کے پاس رہے گا۔ امریکی صدر نے القاعدہ کے خلاف ڈرون حملوں کا دفاع کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ وہ ان حملوں کو محدود کرنے والے ہیں۔
اوباما کا کہنا تھا، ’ہماری قوم کو اب بھی دہشت گردوں کا خطرہ ہے، ہمیں البتہ یہ ماننا چاہیے کہ یہ خطرہ 9/11 والے خطرے سے ایک نئی شکل میں بدل گیا ہے۔‘‘ بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والے ڈرون طیاروں کے ذریعے دور دراز کے ملکوں میں حملوں کے سلسلے میں امریکی حکومت پر خود امریکا میں اور بین الاقوامی سطح پر بھی کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ امریکی صدر نے اپنے پالیسی بیان میں کہا کہ اب ڈرون حملے محض اس صورت میں کیے جائیں گے جب خطرہ ’مسلسل اور ناگزیر‘ ہوگا جبکہ ماضی میں ’اہم خطرے‘ کی صورت میں ڈرون حملہ کیا جاتا تھا۔ ’’یہ کہنا کہ فوجی حکمت عملی جائز ہے یا سودمند ہے، اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ عقلمندی اور ہر صورت میں جائز ہے۔‘‘
امریکی صدر نے ڈرون حملوں اور گوانتانامو کی جیل، دونوں کو بند کرنے کے وعدے کر رکھے ہیں، جنہیں نبھانے کے حوالے سے وہ اب تک بظاہر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ رواں برس جنوری میں دوسری مدت کے لیے امریکی صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے والے باراک اوباما نے اپنے خطاب میں مزید کہا، ’’دہشت گرد تنظیموں کو توڑنے کے لیے ہماری منظم کوششیں جاری رہنی چاہیئں، لیکن یہ جنگ، تمام جنگوں کی طرح، ختم ہونی چاہیے۔ یہی تاریخ کا مشورہ ہے، یہی ہماری جمہوریت کا مطالبہ ہے۔‘‘
اوباما کے مخالف ریپبلکن سیاست دانوں نے اوباما کی اس پالیسی کو دہشت گردی کے مقابلے میں مات سے تعبیر کیا ہے۔ ریاست جارجیا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر Saxby Chambliss کے بقول صدر اوباما کی تقریر کو دہشت گرد اپنی جیت کے طور پر دیکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی کامیاب سرگرمیوں کو چھوڑ کر ایک مبہم راہ اختیار کی جا رہی ہے۔
گوانتانامو کیمپ سے متعلق اقدامات
امریکی صدر نے گوانتانامو کے حراستی کیمپ کو بند کرنے سے متعلق اپنے پرانے وعدے کو دہرایا۔ کیوبا کے جزیرے پر امریکی بحری اڈے کی حدود کی اندر قائم اس جیل میں بیشتر قیدی قریب ایک دہائی سے بغیر کسی عدالتی کارروائی کے مقید ہیں۔
اوباما نے قیدیوں کی وہاں سے منتقلی کے حوالے سے ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے کانگریس کے ساتھ مل کر کوششوں کا عزم ظاہر کیا۔ اس جیل سے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسے امریکا کی عالمگیر مثال ہے جو قانون کا مذاق اڑاتا ہے۔ روئٹرز کے مطابق غالب امکان ہے کہ گوانتانامو جیل کی بندش سے متعلق صدر اوباما کی نئی تجویز کو ریپبلکن ارکان کی مخالف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس جیل کے 166 میں سے 103 قیدیوں کی بھوک ہڑتال نے اوباما پر مزید دباؤ بڑھا رکھا ہے کہ وہ اپنے وعدے کا پاس کرتے ہوئے اس کیمپ کو بند کر دیں۔ اوباما کا ریپبلکنز کی طرف سے ممکنہ مخالفت کے حوالے سے کہنا تھا، ’’کانگریس میں سیاست سے بڑھ کر کوئی ایسی منطق نہیں جو ہمیں اس جیل کو بند کرنے سے روک سکے جسے کھولنا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘‘ اوباما بذات خود یہ جیل بند کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ تاہم انہوں نے کانگریس پر زور دیا ہے کہ وہ مشتبہ دہشت گردوں کی وہاں سے منتقلی پر عائد پابندیاں اٹھائے اور ساتھ ہی انہوں نے محکمہء دفاع کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ گوانتانامو کے قیدیوں کے لیے فوجی عدالتوں کے مقام کا تعین کرے۔
(sks / mm (Reuters