1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کی مشرق وسطی پاليسی، نہ اِدھر نہ اُدھر

عاصم سليم12 جنوری 2014

پانچ برس قبل اوباما نے اقتدار سنبھالتے ہی اِس عزم کا اظہار کيا تھا کہ وہ مشرق وسطٰی کے ساتھ روابط ميں بہتری اور مسلم دنيا ميں امريکا کی ساکھ کو بہتر بنائيں گے تاہم اُن کی يہ حکمت عملی مطلوبہ اہداف حاصل کرنے سے قاصر رہی۔

تصویر: Reuters/Jason Reed

گزشتہ چند برسوں کے دوران امريکی صدر باراک اوباما کو افغانستان سے لے کر تيونس تک بيشتر مسائل کا سامنا رہا ہے۔ اِسی سال افغانستان سے بين الاقوامی افواج کا انخلاء طے ہے اور افغان صدر حامد کرزئی ہيں کہ باہمی سکيورٹی کے معاہدے پر دستخط کر کے ہی نہيں دے رہے۔ اُدھر شام ميں مغربی ممالک کی حمايت يافتہ اپوزيشن صدر بشار الاسد کو اقتدار سے عليحدہ کرنے کے اپنے عزائم ميں ناکام ہوتی نظر آتی ہے تو اِسی دوران اُسے اب اسلام پسند قُوتوں کا بھی سامنا ہے۔ يہ وہی اسلام پسند قُوتيں ہيں، جو لبنان اور عراق ميں بھی بد امنی کا سبب بنی ہوئی ہيں۔ دريں اثناء مصر ميں اسلام پسند جماعت اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے سابق صدر محمد مرسی کی معزولی کے بعد سے وہاں پر تشدد واقعات جاری ہيں اور واشنگٹن وہاں کی صورتحال کو بھی واضح انداز ميں سمجھنے سے قاصر ہے۔

اوباما نے اپنے عزم کا اظہار قريب پانچ برس قبل اقتدار سنبھالتے ہی کيا تھاتصویر: picture alliance/AP Photo

تاہم اس دوران امريکی وزير خارجہ جان کيری اپنی کوششيں جاری رکھے ہوئے ہيں کہ کسی نہ کسی طرح اسرائيل اور فلسطين کے مابين تين برس کی تعطلّی کے بعد واشنگٹن کی ثالثی ميں گزشتہ برس دوبارہ شروع ہونے والے امن مذاکرات بے نتيجہ نہ رہيں۔

نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹد پريس کے ايک تجزيے کے مطابق ايسا لگتا ہے کہ جان کيری کے علاوہ اوباما کی قومی سلامتی سے متعلق ٹيم کے اہلکاروں نے شام، عراق، لبنان، ليبيا اور مصر کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے کی پاليسی اختيار کر لی ہے۔ اور اس کے نتيجے ميں واشنگٹن کو تنقيد اور فکر دونوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

عرب دنيا ميں امريکا کا ايک اہم اتحادی ملک سعودی عرب، اسرائيل اور بيشتر امريکی اراکين کانگريس کے ہمراہ اوباما انتظاميہ کے ايران کے ساتھ تعلقات، بالخصوص جوہری تنازعے کے تناظر ميں، فکر مند ہے۔

اس کے برعکس واشنگٹن انتظاميہ کا اصرار ہے کہ اس کی پوزيشن مستحکم ہے اور وہ فيصلہ کرنے کی صلاحيت سے قاصر اور سياسی مشکلات‘ جيسے مسائل کا شکار نہيں ہے۔ انتظاميہ کا کہنا ہے کہ صدر اوباما ہر مخصوص ملک يا مسئلے کے ليے کافی سوچ بچار کے بعد جامع سفارتی حل تلاش کرنے کے عمل ميں مصروف ہيں، جو سابق امريکی صدر جارج ڈبليو بش کی عسکری اور دباؤ ڈالنے والی حکمت عملی کے اثرات کو کم کرنے کے ليے ہے۔

عراق ميں جاری پر تشدد واقعات کا ايک منظرتصویر: Reuters

نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹد پريس کے اس تجزيے کے مطابق اگرچہ مشرق وسطٰی کو درپيش بحران کی ذمہ داری اوباما پر عائد نہيں کی جاسکتی تاہم اس حوالے سے خدشات ضرور بڑھ رہے ہيں کہ خطے کے ليے واشنگٹن کی پاليسياں کسی واضح سمت ميں نہيں جا رہيں اور کسی حد تک يہ بھی ممکن ہے کہ اِنہی پاليسيوں کی وجہ سے شام اور عراق جيسے ممالک ميں اسلامی شدت پسندی ميں اضافہ ہو رہا ہے۔

اوباما انتظاميہ پر الزام لگايا جاتا ہے کہ اس نے اِن تمام ممالک پر سے اپنی توجہ ہٹا کر اسرائيلی و فلسطينی تنازعے پر مرکوز کر رکھی ہے۔ ری پبلکن سينيٹر لنڈسے گريہم نے يروشلم ميں تين روز قبل منعقدہ ايک پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ خطے ميں بے انتہا افراتفری برپا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اسرائيل ايسی رياستوں میں گھرا ہوا ہے، جو مسائل کا شکار ہيں جبکہ اسی دوران ايران ايٹمی صلاحيت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ شام نے ايک سرطان کی شکل اختيار کر لی ہے، جس سے خطے کے کئی ديگر ممالک متاثر ہو رہے ہيں۔ ميں امن کا خواہاں ہوں۔ ايک ايسے وقت ميں جب دنيا امريکا پر نظريں لگائے بيٹھی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ امریکی رہنما اپنا کردار ادا کریں‘‘۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں