سابق امريکی صد باراک اوباما نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے محکمہ انصاف پر دباؤ ڈالنے کے عمل اور ان کی متنازعہ پاليسيوں پر سخت تنقيد کی ہے۔ امريکا ميں ’مڈ ٹرم‘ اليکشن کا انعقاد دو ماہ بعد ہونے والا ہے۔
اشتہار
سابق امريکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ خوف کی سياست، ايک گروپ کو کسی دوسرے کے خلاف کرنا اور عوام کو يہ بتانا کہ مختلف دکھنے، بولنے اور عبادت کرنے والے لوگوں کی وجہ سے سلامتی کی صورت حال ميں خرابی ہے، کافی پرانی حکمت عملی ہے۔ سابق صدر کے بقول ايک صحت مند جمہوريت ميں ايسے ہتھکنڈے کارآمد ثابت نہيں ہوتے۔ اوباما نے موجودہ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے يہ تنقيد يونيورسٹی آف ایلينوئے ميں اپنی تقرير کے دوران کی۔
سابق امريکی صدر نے يہ تنقيد ايک ايسے موقع پر کی ہے، جب قريب دو ماہ بعد امريکا ميں ’مڈ ٹرم‘ اليکشن ہونے والے ہيں۔ يہ انتخابات بطور ملکی صدر ٹرمپ کے مستقبل کے حوالے سے کافی اہم ہيں۔
اس تقرير کے دوران اوباما نے يہ بھی کہا کہ جس اقتصادی ترقی کی ٹرمپ کافی بڑھ چڑھ کر باتيں کرتے ہيں اور خود کو اس کا ذمہ دار قرار ديتے ہيں، وہ در اصل اوباما کے دور سے شروع ہوئی تھی۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے اوباما کی تنقيد کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ وہ تقرير کے دوران سو گئے تھے۔ انہوں نے اپنی سياسی مہم کے دوران شمالی ڈکوٹہ کے شہر فارگو ميں يہ بيان ديا۔ ٹرمپ نے کہا کہ اوباما ملک ميں ہونے والی ترقی کا ذمہ دار خود کو قرار دينے کی کوشش کر رہے ہيں۔
سابق صدر اوباما نے موجودہ صدر ٹرمپ کی ورجيننا ميں گزشتہ برس ہونے والے پر تشدد واقعات پر رد عمل کو بھی تنقيد کا نشانہ بنايا۔ انہوں نے کہا، ’’ہميں امتيازی سلوک اور نسل پرستی کے خلاف کھڑا ہونا چاہيے۔ يہ بھی ضروری ہے کہ ہم نازيوں کے ساتھ ہمدری رکھنے والوں کے خلاف کھڑے ہوں۔ نازی غلط تھے، صرف يہ کہنا کتنا مشکل کام ہے؟‘‘
’مڈ ٹرم‘ اليکشن کے سلسلے ميں باراک اوباما آئندہ چند ہفتوں کے دوران سياسی طور پر کافی سرگرم رہيں گے۔ وہ ملک کے مختلف حصوں ميں ڈيموکريٹ سياستدانوں کی حمايت ميں نکالی جانے والی ريليوں ميں شرکت کريں گے۔ ٹرمپ پر ان کی يہ تازہ تنقيد اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ان تقاريب اور ريليوں ميں وہ کون سے نکات اٹھائيں گے۔
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔