اوباما کے قومی سلامتی مشیر جیمز جونز مستعفی
9 اکتوبر 2010لگتا ہے اوباما انتظامیہ آج کل تبدیلیوں کے دور سے گزر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتےہی وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف ریم امانوئیل نے شکاگو کے میئر کے لئے ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے وائٹ ہاؤس کوخیر باد کہہ دیا تھا۔ اس کے بعد اقتصادی شعبے کے مشیر لیری سمرز نے21 ستمبر کو اعلان کیا کہ وہ 2010ء کے آخر میں دوبارہ ہاورڈ یونیورسٹی سے منسلک ہو جائیں گے۔ اب سلامتی امور کے مشیر جیمز جونز نے استعفی کے اپنے فیصلے سے سب کو حیران کر دیا ہے۔ اس حوالے سے یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ اوباما جونز کے غیر ملکی دوروں سے تنگ تھے اور ان دونوں کے باہمی تعلقات خوشگوار نہیں تھے۔
بہرحال وائٹ ہاؤس میں استعفی کا اعلان کرتے ہوئے اوباما نے جونز کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ دو سال تک وہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے جونز کے مشوروں پر بھروسہ کرتے رہے۔ اس موقع پر 66 سالہ جونز بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اوباما کے بقول طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ ہو، عراق مشن ہو یا پھر روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بات، ہر موقع پرجیمز جونز نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جونز نے پوری زندگی امریکی قوم کی خدمت کی ہے۔ پہلے ایک فوجی کی طرح اور پھر وائٹ ہاؤس میں۔ اوباما نے بتایا کہ جونز بہت پہلے ہی اپنے اس ارادے سے ان کو آگاہ کر چکے تھے۔
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دنوں بوب وڈورڈ کےحوالے سے بیان دینے پر وائٹ ہاؤس کے عملے نےجیمز جونز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ بوب وڈورڈ ’اوباما کی جنگ‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے لکھا تھا کہ افغان جنگ کے حوالےسے وائٹ ہاؤس میں اختلافات پائے جاتے تھے۔ صدر باراک اوباما نے اس انتہائی اہم سمجھے جانے والے عہدےکے لئے جیمز جونزکے نائب ٹوم ڈونیلون کوچنا ہے۔
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس بھی اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ 2011ء میں کسی وقت اپنا عہدہ چھوڑنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح اوباما کے پریس سیکریٹری رابرٹ گبس بھی کہہ چکے ہیں کہ 2011ء میں اپنے عہدے اس لئے چھوڑ دیں گے تاکہ وہ 2012ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اوباما کی مہم کی تیاری کر سکیں۔ اس کے علاوہ امریکی چیف آف سٹاف مائیک مولن بھی شاید اگلے برس یکم اکتوبر کو ریٹائر ہو جائیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : عاطف توقیر