اورنگ زیب کا مقبرہ بھی ہندو قوم پرستوں کے نشانے پر
20 مئی 2022
بھارت میں محکمہ آثار قدیمہ نے، مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے مقبرے کو تباہ کرنے کی دھمکی کے بعد، چند روز کے لیے اسے بند کر دیا ہے۔ دہلی میں بھی اورنگ زیب نام کی ایک گلی کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
اشتہار
بھارتی دارالحکومت دہلی میں گزشتہ روز حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے لوگوں نے اورنگ زیب لین کے ایک سائن بورڈ کو مٹا دیا اور اس پر ایک بینر چسپاں کر دیا، جس پر’’بابا وشواناتھ مارگ‘‘ لکھا ہوا ہے۔
یہ واقعہ بھارتی پارلیمان کے آس پاس کے علاقے میں پیش آیا۔ چند روز قبل ہی دہلی میں بی جے پی کے سربراہ آدیش گپتا نے اورنگ زیب لین، ہمایوں روڈ، اکبر روڈ اور شاہ جہاں روڈ کا نام بدل کر انہیں ہندوؤں کی شخصیات کے نام پر رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اورنگ زیب لین کے سائن بورڈ کو مٹانے کے لیے بی جے پی کے جو کارکن جمع ہوئے، اس میں پارٹی کے کئی سرکردہ رہنما بھی شامل تھے۔ حکام نے اس حرکت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، تاہم بی جے پی کا کہنا ہے کہ اگر اورنگ زیب لین کا نام نہیں بدلا گیا تو اس کے کارکن احتجاج کے لیے روڈ پر نکلیں گے۔
مودی حکومت نے سن 2014 میں اقتدار میں آتے ہی دارالحکومت دہلی کی تاریخی اورنگ زیب روڈ کا نام بدل دیا تھا اور اب دہلی میں ان کے نام کی ایک آخری لین باقی بچی ہے۔ تاہم ہندو قوم پرست جماعتیں اب اسے بھی بدلنے پر بضد ہیں۔
اشتہار
اورنگ زیب کا مقبرہ بند کر دیا گیا
ہندو قوم پرستوں نے اورنگ زیب کے مقبرے کو بھی منہدم کر کے اسے مٹا دینے کی دھمکی دی ہے اس لیے محکمہ آثار قدیمہ نے مغل شہنشاہ کے مقبرے کو فی الوقت بند کر دیا ہے۔ ان کا مقبرہ ریاست مہا راشٹر کے ضلع اورنگ آباد کے علاقے خلد آباد میں ہے۔
خطرے کے پیش نظر مسجد کی ایک مقامی کمیٹی نے اس میں تالا ڈال دیا تھا، جس کے بعد محکمے نے اسے ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا۔ ریاست کے نائب وزیر اعلٰی اجیت پوار کا کہنا تھا،’’مغل شہنشاہ اورنگزیب کا مقبرہ پانچ دن تک بند رہے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ریاست میں امن و امان کی صورتحال متاثر نہ ہو۔‘‘
اورنگ آباد دیہی پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا تھا،’’یادگار کے مقام پر حالات قابو میں ہیں اور اب تک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ تاہم احتیاطی تدابیر کے طور پر مقبرے کو سیاحوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔‘‘
رواں ہفتے منگل کے روز ہندو قوم پرست تنظیم 'مہا راشٹر نو نرمان سینا (ایم این ایس) کے ایک ترجمان گجانن کالے نے اپنی ایک ٹویٹ میں اورنگ زیب کی قبر کی وجود پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے تباہ کرنے کی دھکی دی تھی۔
ان کا کہنا تھا، ’’شیواجی مہاراج کی سرزمین میں اورنگ زیب کی قبر کی کیا ضرورت ہے؟ اس قبر کو گرا دو، تاکہ (اویسی کی طرح) کوئی علیحدگی پسند اس پر جھکنے نہ آئے۔ بالاصاحب ٹھاکرے نے بھی تو یہی کہا تھا۔‘‘
اس تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے مسلم سیاسی رہنما اسد الدین اویسی کے چھوٹے بھائی اکبر الدین اویسی نے اورنگ آباد کا دورہ کرتے ہوئے، اورنگ زیب کے مقبرے پر حاضری دی تھی۔
اس پر سب سے پہلے ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے رہنما دیوندر فڈنویس نے اپنے رد عمل میں اورنگ زیب کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا،’’اویسی میری بات سنو، اورنگ زیب کی شناخت پر کتا بھی پیشاب نہیں کرے گا۔‘‘
صلاح الدین زین/ ک م
’واہ‘ کے مغل باغات، عہدِ رفتہ کے احیاء کی کوششیں
’’مغل گارڈنز‘‘ یا مغلیہ باغات پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے شمال مغرب میں پچاس کلومیٹر کی مسافت پر موجودہ ’واہ چھاؤنی‘ اور پرانے واہ گاؤں میں مرکزی جرنیلی سڑک پر واقع ہیں۔
تصویر: DW/S. Rahim
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
یہ باغ مغلیہ طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے اور اس میں خوبصورت بارہ دریاں، فوارے نہریں اور آبشاریں ہیں۔ بڑی بارہ دری کے جنوبی پہلوگرم اور سرد دونوں قسم کے ملے ہوئے پانی کے حمام تعمیر کیے گئے۔ بارہ دریوں کے اندرونی حصے میں مصالحے سے دستکاری کی گئی ہے اور چھوٹے کمروں کی دیواروں کو پھول پتیوں اور نقش و نگار سے سجایا گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
تعمیر کو صدیاں بیت گئیں
مغل شہنشاہ اکبر کے ایک نامور امیر اور شہنشاہ جہانگیر کے برادر نسبتی راجہ مان سنگھ نے 1581ء سے 1586ء کے درمیانی عرصے میں ان باغات کی تعمیر شروع کی۔ مان سنگھ نے یہاں ایک حوض اور اس کے درمیان ایک بارہ دری بنوائی۔ شہنشاہ جہانگیر نے کابل جاتے ہوئے 29 اپریل 1607ء کو اس جگہ قیام کے دوران حوض سے مچھلی کا شکار کیا اور اپنی خود نوشت میں اس شکار کا احوال لکھا۔
تصویر: DW/S. Rahim
شاہانہ تعمیرات کھنڈر بن گئیں
تخت نشینی کے بعد مغل فرمانروا شاہ جہاں نے 1639ء میں کابل جاتے ہوئے پہلی بار یہاں قیام کیا اور اپنے مرکزی محکمہ تعمیرات کو بلوا کر اس باغیچے اور عمارت کی ازسرنو تعمیر کا حکم دیا۔ اس دور کے ماہر تعمیرات احمد معمار لاہوری نے یہاں کے باغوں، محلات اور سرائے کے نقشے تیار کیے اور اسے 2 سال تک اپنی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔
تصویر: DW/S. Rahim
مغل بادشاہوں کی پسندیدہ جگہ
شاہ جہاں نے چار مرتبہ 1646ء اور 1654ء کے درمیانی عرصے میں چار مرتبہ کابل جاتے ہوئے اور واپسی پر ہمیشہ باغ میں قیام کیا۔ اورنگزیب عالمگیر آخری مغل فرماں رواتھا، جس نے حسن ابدال میں 6 جولائی 1674ء تا 3 جولائی 1676ء اپنے قیام کے دوران کچھ عرصہ اس باغ میں بھی گزارا۔
تصویر: DW/S. Rahim
کیسی بلندی، کیسی پستی
پھر اس باغ کی زبوں حالی کا دور شروع ہوا، خاص طور پر درّانی اور سکھ دور میں اس باغ کو بہت نقصان پہنچا اور یہاں جو کچھ بھی تھا، تباہ ہو کر رہ گیا۔
تصویر: DW/S. Rahim
دیکھ بھال اور مرمت نئے سرے سے
1865ء میں برطانوی دور حکومت میں اس باغ کو واہ کے نواب حیات خان کی تحویل میں دے دیا گیا۔ اس باغ کی تاریخی اور تعمیراتی اہمیت کے پیش نظر 1976ء میں حکومت پاکستان نے دیکھ بھال اور مرمت کے لیے اس باغ کو محکمہٴ آثار قدیمہ کی تحویل میں دے دیا، تب اس کی باقاعدہ نگرانی اور تحفظ پر کام شروع کیا گیا۔
تصویر: DW/S. Rahim
مویشیوں کے چارے کے لیے باغ کی گھاس
باغ کی سیر کے دوران متعلقہ محمکے کی غفلت کا مظاہرہ جا بجا دیکھا جا سکتا ہے۔ مقامی افراد یہاں سے اپنے مال مویشیوں کے لیے گھاس کو چارے کے طور پر کاٹ لے جاتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے باغ کی دیکھ بھال میں کوئی احتیاط برتی نہیں جا رہی۔
تصویر: DW/S. Rahim
تعمیرِ نو کا کام زور شور سے جاری
آج کل اس باغ کے بڑے حوضوں، نہروں، راستوں اور چار دیواری کا کام تکمیل کے قریب ہے۔ پتھر کی جالیوں، بارہ دریوں، حمام اور آبشاروں کی مرمت نیز باغ میں مغلیہ دور کی شجر کاری کا کام بھی جلد مکمل کر دیا جائے گا۔
تصویر: DW/S. Rahim
مرکزی حوض کی حالتِ زار
پانی کے مرکزی حوض کی تہ بھی کائی اور سیاحوں کی طرف سے پھینکی جانے والی گندگی کی وجہ سے انتہائی خراب حالت میں ہے جبکہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے پانچ سو سال پرانا یہ تاریخی ورثہ ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے مسلسل زبوں حالی کا شکار ہے۔
تصویر: DW/S. Rahim
کبھی یہاں شہنشاہ بیٹھا کرتے تھے
کسی دور کی چمکتی دمکتی عمارات آج مکمل طور پر کائی کی گرفت میں ہیں۔ اس باغ میں قدرت کا ایک کرشمہ یا شاہکار بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک برگد کے بڑے درخت کے عین بیچ میں سے ایک کھجور کا درخت بھی اگا ہوا ہے، جو دعوت نظارہ دیتا ہے۔