1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اورکزئی میں جھڑپیں، چالیس جنگجو اور چھ فوجی ہلاک

26 مارچ 2010

پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی تازہ ترین جھڑپ میں40 عسکریت پسند جبکہ پانچ فوجی ہلاک ہوگئے۔

تصویر: AP

پاکستان کے قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں سیکیورٹی فورسز کے طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائیوں میں تیزی آگئی ہے اورکزی کےعلاقہ کلائی می‍ں عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا، جس میں ایک لیفٹیننٹ کرنل سمیت چھ اہلکار ہلاک جبکہ چودہ زخمی ہوئے۔

اس حملے کےبعد سیکورٹی فورسز نے قریبی علاقوں میں عسکریت پسندوں کےخلاف آپریشن تیز کرتے ہوئے جیٹ طیاروں سے ان کے ٹھکانوں پر بمباری کی میجر جنرل طارق کاکہنا ہے کہ جوابی کاروائی می‍ں 40 عسکریت پسند ہلاک کیے گئے، جن میں عرب اور ازبک دہشت گرد شامل ہیں۔ طارق خان کے مطابق فوج نے کئی اہم علاقوں کاکنٹرول سنبھال لیا ہے جبکہ دوسری جانب قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

ماہرین کا کہناہے کہ سیکیورٹی فورسز پرحملوں میں اضافے کی وجوہات میں مبینہ امریکی جاسوس طیاروں کے حملے سرفہرست ہیں۔ معروف صحافی اور قبائلی امور اورتجزیہ نگار اقبال خٹک کاکہناہے : ’’اورکزئی ایجنسی آپریشن جو تین دن پہلے شروع کیا گیا ہے، جس میں پہلی مرتبہ فوج اورفرنٹیئر کور کے جوان بھیج دیئے گئے یہ جنوبی وزیرستان آپریشن کاحصہ ہے، جنوبی وزیرستان سے طالبان کے زیادہ تر لوگ شمالی وزیرستان یاپھر اورکزئی میں پہنچ گئے تھے۔ اگراورکزئی طالبان کے کنٹرول میں رہتا ہے توحکومت کو زیادہ پریشانی کاسامنا کرناپڑےگا کیونکہ اورکزئی ایجنسی کی سرحد خیبرایجنسی سے اورخیبرایجنسی کی سرحد پشاورسے ملتی ہے۔ اگریہ لنک اور روٹ ان کے لئے آزاد رہے تو پشاورکی سیکیورٹی باعث خدشہ ہوگی اگراورکزئی کوکنٹرول نہیں کرسکتے تو جتنی کارروائیا‍ں مختلف علاقوں میں شروع ہیں انہیں وہاں سے نکلنے اورمحفوظ جگہ آنے کے لئے ایک آزاد اورمحفوظ راستہ مل سکتا ہے۔ اورکزئی ایجنسی کاآپریشن جنوبی وزیرستان کے آپریشن کاتسلسل ہے اگریہ آپریشن بند ہوا تو ہم اپنی انرجی ‌ضائع کریں گے اورطالبان کاکچھ نہی‍ں کرپائیں گے۔‘‘

آپریشن کے باعث لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد پہلے ہی نقل مکانی کر چکی ہےتصویر: AP

دوسری جانب عسکریت پسندوں کی کارروائیوں اوراس کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کی وجہ سے لاکھوں قبائلی پناہ گزین بن کر صوبہ سر‍حد کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں۔

حکومت کی جانب سے جہاں جنگ بندی کے لئے موثر اقدامات نظرنہیں آتے وہاں نقل مکانی کرنے والے بھی بے سروسامانی میں زندگی گذارنے پرمجبور ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ‌حالیہ مذاکرات کے بعد عسکریت پسندوں کی کاروائیوں می‍ں اضافے کے خدشات کومسترد نہیں کیاجاسکتا۔

رپورٹ : فرید اللہ خان

ادارت : عاطف توقیر

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں