اور اب افغانستان میں کان کنی کے ٹھیکوں کی جنگ
11 نومبر 2011جنگ زدہ افغانستان جس کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہاں سے 2014ء میں بین الاقوامی افواج کی واپسی کے بعد یہ ملک دوبارہ طالبان کے کنٹرول میں جا سکتا ہے، وہاں سرمایہ کاری کرنا یقیناﹰ ایک مشکل اور جرآت مندانہ اقدام ہے۔ مگر کہا جا رہا ہے کہ جو اس تباہ حال ملک میں زیر زمین معدنیات کو نکالنے کے لیے کان کنی کے شعبے میں ٹھیکے حاصل کرے گا، وہ بہت زیادہ فائدے کی امید بھی کر سکتا ہے کیونکہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہاں ایک ٹریلین ڈالر سے زائد مالیت کی معدنیات موجود ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے افغان وزارت برائے معدنیات اور کان کنی کی ایک دستاویز کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغانستان سال 2014ء تک ہر برس پانچ کانوں سے معدنیات نکالنے کے حقوق بیچے گا۔ شیڈول کے مطابق یہی وہ سال بھی ہے جب افغانستان سے آخری غیر ملکی فوجی بھی واپس چلا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق اب جبکہ ایک دہائی سے جاری جنگ میں شریک ممالک اس جنگ کے خاتمے کے لیے افغانستان کو درپیش اقتصادی مسائل کے حل پر زور دے رہے ہیں، افغان حکومت کے اس نئے فیصلے سے مستقبل میں افغانستان میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے علاقائی سطح پر کھینچا تانی شروع ہوجائے گی۔
اقتصادی طور پر تیزی سے ترقی کرتا ملک چین افغانستان کا وہ پہلا پڑوسی ملک ہے جس نے پٹرول اور تانبے کی تلاش کے حوالے سے رعایتیں حاصل کی ہیں۔ افغان دارالحکومت کابل کے جنوب میں واقع آئنک مائن سے معدنیات نکالنے کے حقوق چین نے 2007ء میں حاصل کیے تھے۔ سوویت دور کے اندازوں اور پھر امریکی جیولوجیکل سروے کے ایک تازہ اندازے کے مطابق بھی اس کان سے سالانہ 11 ملین ٹن تانبا حاصل کیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف توقع کی جا رہی ہے کہ جنوبی ایشیا کی ایک اور ابھرتی طاقت بھارت بھی ایرانی پیشکش کو مات کر کے کان کنی کے حوالے سے افغانستان میں اب تک کے سب سے بڑے منصوبے کے حقوق حاصل کر لے گا۔ خام لوہے کی یہ کان صوبہ بامیان میں واقع ہے اور اندازے کے مطابق اس میں دو بلین ٹن خام لوہا موجود ہے۔ اس پر فیصلہ اگلے چند دنوں میں متوقع ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک