اور اب امریکہ کے لیے نرم گوشہ: عمران خان کا انٹرویو زیر بحث
عبدالستار، اسلام آباد
14 نومبر 2022
گزشتہ پاکستانی حکومت کے خاتمے اور مبینہ امریکی سازش سے متعلق عمران خان کا نیا بیان کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ کچھ ناقدین اسے حقیقت پسندانہ کہہ رہے ہیں، کئی دیگر کے بقول یہ اسٹیبلشمنٹ اور واشنگٹن کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔
اشتہار
کچھ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہیے کیونکہ وہ پھر کسی بھی وقت اپنا بیان بدل سکتے ہیں۔ برطانوی روزنامے فنانشل ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا تھا کہ وہ اب اپنے اقتدار کے خاتمے کا الزام امریکی انتظامیہ پر نہیں لگاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ سے باوقار تعلقات چاہتے ہیں۔ جب ان سے 'سازشی نظریے‘ کے بارے میں پوچھا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اب اس کو چھوڑ چکے ہیں۔ ''ہمارے امریکہ سے آقا اور غلام والے تعلقات رہے ہیں۔ ہمیں کرائے کی گن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ لیکن ان سب باتوں کے لیے میں امریکہ سے زیادہ اپنے ملک کی حکومتوں کو الزام دیتا ہوں۔‘‘
عمران خان کے اس بیان کو تقریباﹰ تمام اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا تھا۔ مختلف ٹی وی چینلز پر بھی اس انٹرویو کی دھوم رہی جب کہ عمران خان کے مخالفین نے بھی سوشل میڈیا پر اس انٹرویو کے حوالے سے پورا ایک طوفان برپا کیے رکھا۔
حقیقت پسندانہ بیان
عمران خان اپریل سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو گرانے میں ایک مبینہ امریکی سازش کار فرما تھی۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا اقتدار ختم ہونے سے کچھ مہینے پہلے امریکہ اور مغرب کے خلاف سخت بیانات دیتے رہے تھے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ ایک سپر طاقت ہے، جو ایک طرح سے دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی بھی ہے۔ لہٰذا امریکہ سے تعلقات بہتر رکھنا تمام ممالک اور سیاست دانوں کے لیے بہتر ہے۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
تجزیہ نگار جنرل ریٹائڑد غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے یہ بیان دے کر دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکہ کے سخت بیانات پر کچھ طاقت ور حلقوں کو بھی تشویش تھی کیونکہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ پر تھا اور معاشی طور پر ہمارے بہت سے مسائل تھے، جو اسی صورت کم ہو سکتے تھے، جب ہمارے مغرب اور امریکہ سے تعلقات بہتر ہوں کیونکہ واشنگٹن کا آئی ایم ایف، ورلڈبینک اور دوسرے مالیاتی اداروں پر اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔‘‘
جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ کے مطابق اب عمران خان نے امریکہ سے بہتر تعلقات رکھنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ''میرے خیال میں یہ مثبت بات ہے کیونکہ آپ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہیں رکھ سکتے۔‘‘
اسٹیبلشمنٹ سے صلح کی راہ
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ مغرب اور امریکہ کے حوالے سے عمران خان کے بیان پر سیخ پا تھی اور یہ کہ اس عدم اطمینان کو مختلف ذرائع سے سابق وزیر اعظم تک پہنچا بھی دیا گیا تھا۔ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بیان کو کچھ لوگ یوں بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔ ''لازمی بات ہے کہ اگر عالمی برادری سے آپ کے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے، تو آپ کو مالی مشکلات ہوں گی اور اگر ملکی معیشت خراب ہوگی تو اس پر اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام محب وطن حلقوں کو تشویش بھی ہو گی۔ اب چونکہ امریکہ کے حوالے سے عمران خان کا مثبت بیان سامنے آیا ہے، تو یہ بنی گالا اور جی ایچ کیو کے درمیان تعلقات میں بہتری کی طرف پہلا قدم بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
عدم اعتماد کی تحريک کب کب اور کس کس کے خلاف چلائی گئی؟
عمران خان ايسے تيسرے وزير اعظم بن گئے ہيں، جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحريک چلائی گئی۔ اس سے قبل بے نظير بھٹو اور شوکت عزيز کو بھی تحريک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ يہ کب کب اور کيسے ہوا، جانيے اس تصاويری گيلری ميں۔
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد
پاکستان مسلم ليگ نون کے صدر شہباز شريف نے اٹھائيس مارچ سن 2022 کو وزير اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی ميں عدم اعتماد کی تحريک جمع کرائی۔ اپوزيشن کا الزام ہے کہ حکومت ملک ميں معاشی، سياسی اور سماجی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔ قومی اسمبلی کی 342 نشستوں ميں سے عمران خان کی جماعت پاکستان تحريک انصاف کی 155 ہيں۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے حکومت کو 172 ووٹ درکار تھے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance
ملک آئينی بحران کا شکار
تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی تین اپریل کو ہونا طے پائی تاہم ایسا نہ ہو سکا کيونکہ عمران خان کی درخواست پر صدر عارف علوی نے اسملبیاں تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ سیاسی و قانوی تجزیہ کاروں کے مطابق پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتی ہیں اور اب یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک نئے سیاسی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
تصویر: Aamir QURESHI/AFP
شوکت عزيز کے خلاف کرپشن کے الزامات اور عدم اعتماد کی تحريک
اس سے قبل سن 2006 ميں بھی حزب اختلاف نے اس وقت کے وزير اعظم شوکت عزيز کے خلاف تحريک عدم اعتماد چلائی تھی۔ يہ پاکستان کی تاريخ ميں دوسرا موقع تھا کہ کسی وزير اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پيش کی گئی۔ اپوزيشن نے عزيز پر بد عنوانی کا الزام عائد کر کے يہ قدم اٹھايا تھا۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
تحريک ايک مرتبہ پھر ناکام
عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے اپوزيشن کو 172 ووٹ درکار تھے مگر اس وقت کی اپوزيشن صرف 136 ووٹ حاصل کر پائی جبکہ وزير اعظم شوکت عزيز کو 201 ووٹ ملے۔ يوں يہ تحريک بھی ناکام رہی۔
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance
پاکستانی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک
پاکستانی کی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک سن 1989 ميں بے نظير بھٹو کے خلاف چلائی گئی تھی۔ مسلم ليگ نون سے وابستہ سابق وزير اعظم نواز شريف نے اس وقت يہ قرارداد پيش کرتے وقت بھٹو پر الزام لگايا تھا کہ ان کی پاليسياں تقسيم کا باعث بن رہی ہيں اور وہ فيصلہ سازی ميں ملک کی ديگر سياسی قوتوں کو مطالبات مد نظر نہيں رکھتيں۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
بے نظير بال بال بچ گئيں، اپوزيشن کی ’اخلاقی برتری‘
دو نومبر سن 1989 کو 237 رکنی پارليمان ميں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی۔ 107 نے اس کے حق ميں ووٹ ڈالا جبکہ 125 نے بے نظير بھٹو کی حمايت ميں فيصلہ کيا۔ اپوزيشن کو کاميابی کے ليے 119 ووٹ درکار تھے۔ يوں وہ صرف بارہ ووٹوں کے فرق سے کامياب نہ ہو سکی۔ پارليمان ميں اس وقت اپوزيشن ليڈر غلام مصطفی جتوئی اور پنجاب کے وزير اعلی نواز شريف نے اسے اپوزيشن کے ليے ’اخلاقی برتری‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
6 تصاویر1 | 6
صرف ایک نیا یو ٹرن
تاہم کچھ سیاست دانوں کے خیال میں عمران خان کا بیان ایک نئے یو ٹرن کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری منظور کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بیانات کا کوئی بھروسہ نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کل کیا پتہ کہ عمران خان اس بیان سے ہی مکر جائیں۔ وہ شروع سے ہی ایسا کر رہے ہیں۔ ان کے بیانات اور باتیں قابل بھروسہ نہیں ہیں۔‘‘
اشتہار
’خان کے تعلقات کس کے ساتھ بہتر تھے؟‘
پاکستان میں ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان کے امریکہ سے تعلقات کچھ بہت زیادہ بہتر نہیں تھے۔ لیکن چوہدری منظور کا دعویٰ ہے کہ ان کے دور میں پاکستان کے کسی بھی ملک سے بہتر تعلقات نہیں تھے۔ ''یہ سمجھنا کہ اس بیان کے بعد خان کے امریکہ سے تعلقات بہتر ہو جائیں گے، اور یہ کہ پہلے خان کے امریکہ سے تعلقات اچھے نہیں تھے، یہ ایک نا مناسب سوچ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان کے تعلقات کس سے بہتر تھے؟ ان کے دور میں چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک ناراض تھے۔‘‘
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
’بیانیہ نہیں بدلا‘
پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات ہمیشہ ہی سیاسی افق پر رہے ہیں۔ ماضی میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی ایف سمیت کئی جماعتوں نے امریکہ مخالف نعرے لگائے۔ متحدہ مجلس عمل اسی نعرے کی بنیاد پر جنرل مشرف کے دور میں اچھی خاصی نشتیں لینے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن یہ تاثر بھی ہے کہ اس نعرے کو عوامی مقبولیت کبھی اتنی نہیں ملی جتنی عمران خان نے اپنے بیانیے کی شکل میں اس کو دی۔
اب تاثر یہ ہے کہ عمران خان نے اس نعرےکو ترک کر دیا ہے۔ تاہم ان کی جماعت پی ٹی آئی اس کی تردید کرتی ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما اور سابق مشیر فوڈ سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت کرے گا، تو اس کو عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم بالکل اس بات سے نہیں ہٹے کہ ہماری حکومت کو ایک سازش کے تحت اقتدار سے ہٹایا گیا اور کرپٹ لوگوں کو مسلط کیا گیا۔ تاہم عمران خان نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ امریکہ سے اچھے تعلقات نہیں چاہتے۔ بس ہم ملکی معاملات میں کسی طرح کی مداخلت نہیں چاہتے۔ چاہے وہ انتخابات میں دھاندلی کے لیے کی گئی مداخلت ہو یا سیاسی معاملات میں نادیدہ قوتوں کی مداخلت۔ ہمارا یہ بیانیہ تو اب بھی ہے۔‘‘
حقیقی آزادی مارچ کی کامیابی خیبر پختونخوا کے کارکنوں پر منحصر ہے، عمران خان