میسوت اوزِل کی جانب سے ’نسل پرستی‘ کے الزامات عائد کرتے ہوئے قومی فٹ بال ٹیم سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد جرمنی میں تارکین وطن معاشرتی سطح پر پیش آنے والے امتیازی واقعات کو ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔
تصویر: Imago/Horstmüller
اشتہار
جرمن فٹ بال کھلاڑی میسوت اوزِل نے جرمنی میں قومی فٹ بال فیڈریشن پر الزام عائد کیا تھا کہ انہیں ترک نژاد ہونے کی وجہ سے ’نسل پرستی‘ اور ’تفریق‘ کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ گو کہ میسوت اوزِل کے ان الزامات کو جرمن فٹ بال فیڈریشن کی جانب سے رد کیا گیا ہے، تاہم اس معاملے کے بعد جرمنی میں بسنے والے تارکین وطن سوشل میڈیا پر #MeTwo لکھ کر جرمن معاشرے میں اپنے ساتھ پیش آنے والے ان واقعات کا ذکر کر رہے ہیں، جن میں انہیں عدم مساوات، نفرت، نسل پرستی یا پھر سماجی تفریق کا نشانہ بنایا گیا۔
جرمن جریدے ڈئر اشپیگل سے وابستہ صحافی حسنین کاظم نے ہیش ٹیگ ’می ٹو‘ کے ساتھ ٹوئٹر پر لکھا، ’’جب میں ایک بھری ہوئی ٹرین میں واحد غیرسفید فام شخص تھا، پولیس اندر داخل ہوئی اور مجھ سے شناختی دستاویزات مانگی گئیں۔‘‘
اس مہم کا آغاز ترک نژاد مصنف اور انسانی حقوق کے کارکن علی کان نے ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ کیا تھا۔ گو کہ سوشل میڈیا پر اس سے قبل اس ہیش ٹیگ کے ساتھ خواتین اپنے ساتھ جنسی تفریق، حملوں، ریپ اور اسی انداز کے واقعات کا اظہار کرتی آئی ہیں، تاہم جرمنی میں اب اس ہیش ٹیگ کو معاشرتی عدم مساوات اور نسل کی بنیاد پر تفریق کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اتوار کو اوزِل نے اپنے ایک مراسلے میں اپنے ساتھ ’نسل پرستانہ اور نفرت انگیز رویوں‘ کے الزامات عائد کرتے ہوئے جرمنی کی قومی فٹ بال ٹیم سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ اوزِل کو ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ایک تصویر اتروانے کے بعد جرمنی میں شدید تنقید کا سامنا تھا۔ تب اوزِل نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا، ’’میرے دو دل ہیں، ایک جرمن اور ایک ترک۔‘‘
اس معاملے کے بعد جرمنی میں سماجی انضمام اور نسل پرستی کے موضوع پر شدید بحث جاری ہے۔ گزشتہ منگل کے روز کان نے جرمنی میں اس مہم کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا، ’’غیرملکی پس منظر کے حامل افراد کی جانب سے ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ بحث کی جانا چاہیے۔‘‘
مہاجرين اور اين جی اوز کے ساتھ يکجہتی، جرمن شہری سڑکوں پر
ہزاروں کی تعداد ميں جرمن شہريوں نے بحيرہ روم ميں مہاجرين کو ريسکيو کرنے والی غير سرکاری تنظيموں کے حق ميں مظاہرے کيے ہيں۔ ايسی تنظيميں ان دنوں سياسی دباؤ کا شکار ہيں اور ان کی سرگرميوں کو روک ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
برلن ميں ہزارہا افراد سراپا احتجاج
غير سرکاری تنظيموں کی مہاجرين و تارکين وطن کو ريسکيو کرنے سے متعلق سرگرميوں کو مجرمانہ فعل قرار ديے جانے پر جرمن دارالحکومت برلن سميت ديگر کئی شہروں ميں مظاہرين نے ہفتے کے روز احتجاج کيا۔ برلن کے مظاہرے ميں بارہ ہزار سے زائد افراد شريک تھے۔ علاوہ ازيں ہيمبرگ، بريمن، ميونخ اور اُلم ميں بھی احتجاج کيا گيا۔ مظاہرين نے مہاجرين کے ساتھ يکجہتی کے ليے لائف جيکٹس اٹھا رکھی تھيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
ريسکيو کرنے والوں کے ساتھ يکجہتی
ہيمبرگ کے مظاہرے ميں شريک ايک خاتون ’زے برؤکے‘ کے نام سے سرگرم رضاکاروں کے اتحاد کے ساتھ يکجہتی کے طور پر نارنجی رنگ کی لائف جيکٹس اور ديگر کپڑے لٹکاتے ہوئے ہے۔ نيچے لکھی تحرير کا مطلب ہے، ’سمندر ميں انسانوں کی جانيں بچانا جرم نہيں۔‘ ’زے برؤکے‘ کے لفظی معنی ’سمندر ميں پل‘ ہيں اور يہ اتحاد اس واقعے کے بعد وجود ميں آيا، جس ميں ایک بحری جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہيں دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
سب سے جان ليوا سمندری گزر گاہ
برلن ميں نکالے گئے مظاہرے ميں شريک دو خواتين جن کے پلے کارڈ پر لکھا ہے ’انہيں سمندر ميں بھولنا نہيں‘۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے مطابق 2018ء ميں اس سے پچھلے برسوں کے مقابلے ميں مہاجرين کی بحيرہ روم کے راستے آمد ميں خاطر خواہ کمی تو نوٹ کی گئی ہے تاہم يہ سال کافی جان ليوا بھی ثابت ہوا ہے۔ رواں سال اب تک چودہ سو سے زيادہ افراد بحير روم ميں ڈوب کر ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
’بندرگاہيں کھول دو‘
متعدد اين جی اورز پچھلے دنوں کئی يورپی سياستدانوں کی تنقيد کا نشانہ بنتی رہی ہيں۔ چند ممالک نے مہاجرين سے لدے جہازوں کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہ دی يا پھر کافی تاخير سے اجازت دی۔ ايسے يورپی رہنما الزام عائد کرتے ہيں کہ ريسکيو سرگرميوں ميں ملوث غير سرکاری تنظيميں انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں ميں کھيل رہی ہيں۔ اين جی اوز کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنا کام نہ کريں تو کئی انسانی جانيں ضائع ہو سکتی ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
جرمن حکومت کی پاليسيوں پر برہمی
مظاہرے ميں شريک ايک شخص نے ايک تختی اٹھا رکھی ہے جس پر لکھا ہے، ’زيہوفر کی جگہ زیبرؤکے۔‘ يہ جرمن وزير داخلہ ہورسٹ زيہوفر کی پناہ گزينوں کے حوالے سے سخت پاليسی پر ايک طنزيہ جملہ ہے۔ زيہوفر کے اسی موضوع پر جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کے ساتھ اختلافات نے وفاقی حکومت کو بھی کافی پريشان کر رکھا ہے۔ پچھلے دنوں حکومت کو دوبارہ ايک بحران کا سامنا تھا جو بظاہر فی الحال ٹل گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
’يورپ کی سرحديں بند رکھنے کی ذہنيت‘
جرمنی ميں ہفتہ سات جولائی کے روز نکالے گئے ان مظاہروں ميں شامل بيشتر افراد نے مہاجرين کو محفوظ راستے فراہم کرنے کی ضرورت پر زور ديا۔ انہوں نے ’فورٹريس يورپ‘ يا اس سوچ کی مخالفت کی کہ تمام اطراف سے سرحديں بند کر کے يورپ کو ايک قلعے کی مانند پناہ گزينوں کے ليے بند کر ليا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
6 تصاویر1 | 6
ان کا اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں مزید کہنا تھا، ’’میں ایک سے زیادہ شناختی حوالوں کا حامل ہوں۔ جرمنی میرا گھر ہے، مگر میں ایک اور ملک سے بھی جڑا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ یہ دونوں اطراف مجھ میں ایک ساتھ ہیں۔ میں کسی ایک کو ختم نہیں کر سکتا۔‘‘
اس کے فوراﹰ بعد ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کی یہ مہم وائرل ہو گئی، جس میں ہزاروں افراد نے جرمنی میں نسل پرستی اور عدم مساوات سے متعلق اپنے تجربات لکھنا شروع کر دیے۔