1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

اولاد کی تربیت میں والدین کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے!

29 ستمبر 2022

سائنسی تحقیق کے مطابق وہ افراد زياده مطمئن اور خوش گوار زندگی بسر کرتے ہیں، جنہیں بچپن میں بے جا روک ٹوک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ والدین کی بے جا سختی بچوں کی شخصیت پر بہت زیادہ اور برے اثرات مرتب کرتی ہے۔

ثنا ظفر ڈی ڈبلیو اردو کے لیے لکھتی ہیںتصویر: Privat

جو والدین زندگی کو سنوارنے کی کوشش میں پوری طرح اپنی اولاد پر حاوی رہتے ہیں اور نفسیاتی غلبہ رکھتے ہیں، ان کی اولاد بڑی ہو کر بھی فیصلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا  کرتی ہے اور مضبوط شخصیت کی مالک نہیں بن پاتی۔ 

يونیورسٹی کالج لندن کی ایک تحقیق کے مطابق وہ بالغ افراد، جنہیں والدین نے بچپن میں نفسیاتی طور پر کنٹرول نہ کیا ہو، وہ زیادہ پر اعتماد اور کامیاب شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔

والدین کے اس کنٹرول کی دو اقسام ہیں۔ ایک ہے رویے اور برتاؤ پر پابندی۔ یعنی بچہ ابتدائی عمر میں اتنی سمجھ نہیں رکھتا کہ کیا اچھا اور کیا برا ہے؟  اس لیے ماں باپ کی طرف سے کچھ پابندیاں عائد کرنا نا گزیر ہے، جیسے کہ کون سی خوراک صحت بخش ہے، کون سا تعلیمی ادارہ بہتر ہے، سونے جاگنے کے اوقات اور گھر سے باہر اکیلے رہنا کتنا محفوظ ہے، صحبت اور عادات اختیار کرنے میں رہنمائی وغیرہ وغیر۔

یہ سب پابندیاں بچوں کی زندگی میں بہت ضروری ہیں اور ذہنی نشوونما میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ شخصیت  سنوارتی ہیں اور زندگی میں نظم و ضبط اور قاعده لاتی ہیں۔

بڑھتی ہوئی عمر کے بچے اکثر اس پابندی پر نالاں رہتے ہیں مگر ایسی نگرانی کے نتیجے میں بہتر تعلیمی کارکردگی اور بہتر سماجی رویہ انہیں صحیح، غلط اور اچھے، برے کی پہچان میں مدد دیتا ہے۔

اس کے برعکس اس کنٹرول کی ایک اور قسم نفسیاتی کنٹرول  ہے۔ اکثر ماں باپ اپنے بچوں کو صرف اپنے تجربے کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی آزادی مکمل طور پر سلب کر لیتے ہیں۔ سب سے نقصان دہ  عمل یہ ہے کہ جب بچوں کو سب کچھ والدین کی مرضی سے نہ کرنے پر مجرمانہ شرمندگی سے دوچار کیا جاتا ہے۔

بچوں کو پیسوں کا استعمال سکھانا کیوں ضروری ہے؟

بچوں کی ذاتی پسند نا پسند کو پوری طرح نظر انداز کر کے ان کے ہر عمل کو اپنے مطابق چلانے کی کوشش  انہیں ذہنی الجھاؤ کا شکار کر سکتی ہے۔ اسے جذباتی بلیک میل کرنا بھی کہتے ہیں، جب بچہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط سمجھنے سے زیادہ توجہ اس پر دیتا ہے کہ کیا والدین کو برا تو نہیں  لگے گا۔ اس طرح وہ اپنی اقدار اور اخلاقیات کو بھی صرف والدین کے سانچے میں  ڈھالتا ہے اور اپنے ہر قدم کی ستائش و منظوری چاہتا ہے۔ یہ سماجی سند حاصل کرنے کی جستجو بھی شعور کی راہ میں دیوار حائل کر سکتی ہے۔

 بدقسمتی سے اس جذبانی اور نفسیاتی کنٹرول کی ہمارے معاشرے میں عمر کی خاص حد مقرر نہیں ہے۔ روایتی طور پر مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے ہم اکثر عاقل، بالغ، تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار اولاد کو بھی بڑا نہیں ہونے دیتے۔

 ذاتی زندگی کے ہر فیصلے میں دخل اندازی نظر آتی ہے، چاہے وہ اپنی مرضی کے مضامین پڑھنا ہوں، نوکری یا کاروبار کے شعبے کا چناؤ ہو اور خاص طور پر شریک حیات کے انتخاب کے وقت۔

 ازدواجی زندگی میں بھی کچھ نہ کچھ روک ٹوک، اپنے طریقے اور معیار پر اصرار اولاد کے اذہان میں آسودگی  قائم نہیں ہونے دیتا۔ اس کے اثرات رشتوں میں توازن برقرار نہیں ہونے دیتے۔ مرد حضرات کو اکثر ماں اور بیوی میں سے کسی ایک کی ناراضی کا ڈر حق کا ساتھ دینا مشکل کر دیتا ہے۔ خواتین کے لیے میکے اور سسرال کو انصاف سے چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔

پالتو جانور بچوں کے مزاج پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں؟

معاشرتی طور پر صحیح غلط کے ادراک کے لیے غیر جانبدارانہ رائے سے زیادہ لوگوں میں مقبولیت کو ترجیح دینا اس سلسلے کی ایک اور کڑی ہے۔ یہاں تک که اپنے حکمران چنتے وقت آزادانہ رائے رکھنا اور ملک و قوم  کے مجموعی مفاد کو اہمیت دینا مشکل نظر آتا ہے۔ فیصلہ کرنے کی آزادانہ قوت ہر موڑ پر نہایت ضروری ہے، جو کہیں نہ کہیں ایسی نفسیاتی پابندیوں کی نذر ہو جاتی ہے۔

والدین کی نامنظوری کا خوف ذہنی نشوونما میں دیر پا رکاوٹ حائل کر دیتا ہے۔ ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ بچہ خوف اور عزت میں فرق نہیں کر پاتا۔ یہی خوف نفسیاتی الجھاؤ پیدا کرتا ہے اور بدقسمتی سے نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ اگر میں اپنے والدین یا بڑوں کی کسی بات کو غلط نہیں کہہ سکا یا کسی منفی عمل پر سوال نہیں کر سکا تو یہ حق میری اولاد کو بھی نہیں ہونا چاہیے۔

یہاں بات صرف غلط یا منفی عمل پر تنقید کی نہیں بلکہ اکثر اوقات کسی بھی صورت میں مختلف رائے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی اور کبھی کبھار والدین اس اختلاف کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔

 یہی انا وراثت میں اولاد کو ملتی ہے اور اس جذباتی بلیک میلنگ کا سلسلہ کئی نسلوں تک جاری رہتا ہے۔ تعلیم، شعور اور کوشش سے اس روایت کو توڑا جا سکتا ہے۔

 آج کل میڈیا اور کچھ فلاحی ادارے بھی اس معاملے کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کسی حد تک شعور  پیدا ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام خاص کر والدین منظم کوشش کریں تاکہ  بچوں کو اس بے جا ذہنی دباؤ سے آزادی دے کر پختگی کی طرف لایا جا سکے۔

 نئی نسل کی ذہنی آسودگی، اطمینان اور خوشی کے لیے ہمارا یہ قدم اٹھانا بہت ضروری ہے۔ مناسب حدود کا تعین، جو کسی کی انفرادیت کو نہ کچلے بلکہ ایک آزاد رائے اور مضبوط قوت ارادی کا مالک بننے میں مدد کرے۔ والدین کا یہ مثبت رویہ ناصرف اپنی اولاد کے لیے بلکہ پورے معاشرے میں ایک خوش آئند تبدیلی کا ضامن ہو سکتا ہے۔

بچوں کو سیاسی مباحث کا حصہ بنانا چاہیے؟

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں