اوپیک پیداوار میں یکدم کمی کا فیصلہ، تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں
3 اپریل 2023
تیل کی پیداوار یومیہ ایک ملین بیرل سے زیادہ کم کردی جائے گی، اکتوبر میں اوپیک کی جانب سے یومیہ دو ملین بیرل کم کرنے کے فیصلے کے بعد سے یہ پیداوار میں اب تک کی سب سے بڑی کٹوتی ہے۔
اشتہار
پیر کے روز صبح کے وقت ایشیا اور اوشیانا میں کاروبار کے لیے مارکیٹ کھلنے کے ساتھ ہی تیل کی قیمتوں اور مستقبل کے نرخوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔ ایسا سعودی عرب، عراق اور دیگر خلیجی ریاستوں کی جانب سے اتوار کے روز اچانک اس اعلان کی وجہ سے ہوا کہ وہ تیل کی پیداوار میں سابقہ منصوبے کے مقابلے کہیں زیادہ کمی کررہے ہیں۔
پیر کے روز یورپ اور امریکہ میں مارکیٹ کھلنے کے بعد تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
برینٹ خام تیل کی قیمتوں میں 6 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر 85.05 ڈالر فی بیرل ہو گیا۔ امریکی ویسٹ ٹیکساس کروڈ انڈکس بھی 4.88 ڈالر بڑھ کر 80.55 ڈالر ہو گیا۔
تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کا کہنا ہے کہ پیداوار میں کمی کرنے کا فیصلہ مارکیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے "احتیاطی" اقدام کے طور پر کیا گیا ہے۔
اشتہار
تیل کی پیداوار میں کمی کے مضمرات
مئی سے رواں برس کے اواخر تک پیداوار میں یومیہ ایک ملین بیرل سے زیادہ کی کٹوتی ہو گی۔ جو کہ اکتوبر میں اوپیک کی جانب سے یومیہ دو بیرل میں کٹوتی کے فیصلے کے بعد سے سب سے بڑی کٹوتی ہے۔
اوپیک پلس کے ممالک دنیا میں خام تیل کا 40 فیصد سے زیادہ پیدا کرتے ہیں۔
تیل درآمد کرنے والے، بالخصوص کم دولت مند ملکوں کے لیے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ان کے مالیات کو شدید طور پر متاثر کریں گی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ تیل کے استعمال میں زبردست کمی کا کوئی امکان نہیں ہے، انہیں اجناس کے لیے بھی فی بیرل بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور انہیں شاید اپنی کرنسی کے بجائے امریکی ڈالر میں اضافی رقم ادا کرنا پڑے۔
اوپیک نے اپنی پیشن گوئی میں کہا ہے کہ سن 2023 میں عالمی تیل کی مانگ 2.3 بیرل یومیہ بڑھ کر اوسطاً 101.87بیرل ہو جائے گی۔
امریکہ سعودی تعلقات میں کشیدگی
اوپیک گروپ کے ایک رکن روس نے کہا کہ وہ رضاکارانہ طورپر روزانہ پانچ لاکھ بیرل کٹوتی کرے گا۔
تیل کی اونچی قیمتوں سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو مدد ملے گی جنہوں نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ روس یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد تیل کی برآمدات پر عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے اپنے سابقہ کئی ایکسپورٹ مارکیٹ بالخصوص یورپی یونین سے محروم ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تجارتی شراکت داروں کی تعداد محدود ہوگئی ہے اور وہ زیادہ تیل فروخت نہیں کرسکتا۔
امریکہ سعودی عرب اور دیگر اتحادیوں پر پیداوار بڑھانے کے لیے زور دے رہا ہے تاکہ قیمتیں کم ہو سکیں اور روس کو زیادہ مالی نقصان پہنچایا جاسکے، تاہم اس میں اسے کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
اوپیک کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملک کے طور پر سعودی عرب نے یومیہ پانچ لاکھ بیرل کی سب سے بڑی کٹوتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ سن 2022میں سعودی عرب کی یومیہ 11.5ملین کی اوسط پیداوار کا پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔
اوپیک ممالک کے دیگر اراکین میں سے عراق نے یومیہ دو لاکھ گیارہ ہزار بیرل، متحدہ عرب امارات نے ایک لاکھ 44 ہزار بیرل، کویت نے ایک لاکھ 28 ہزار بیرل، قازقستان نے 78000 بیرل، الجزائر نے 48000 بیرل اور عمان نے 40000 بیرل پیداوار کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اکتوبر میں تیل کی پیداوار میں کٹوتی کرنے کا اعلان ایسے وقت کیا گیا تھا جب امریکہ میں وسط مدتی انتخابات ہونے والے تھے اور قیمتوں میں اضافہ ملکی سیاست میں ایک اہم موضوع تھا۔ صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ قیمتوں میں اضافے کے"مضمرات" ہوں گے۔
بعض امریکی قانون سازوں نے تو امریکہ کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک سعودی عرب کے ساتھ تعاون کو منجمد کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
تیل کی قیمتوں میں ڈرامائی کمی کے اثرات
تقریباً روزانہ ہی تیل کی قیمتوں میں کمی کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ ایک برس سے زائد عرصے سے کمزور عالمی معیشت اور تیل کی زیادہ پیداوار کے باعث بے یقینی کی سی صورتحال ہے، جس کی وجہ سے کچھ ممالک بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Hong
خمار اتر رہا ہے
کسی کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ امیر ترین ملکوں میں شمار ہونے والا ناروے بھی تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے متاثر ہو جائے گا۔ بحیرہٴ شمال کی تہہ میں موجود خام تیل نے ناروے کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا تاہم تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اوسلو حکومت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑ رہی ہے۔ اب یہ ملک تیل اور گیس کی فروخت پر بھروسا کرنے کے ساتھ ساتھ ماہی گیری پر بھی انحصار بڑھائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Hagen
دوہرا نقصان
صرف یورپی یونین کی اقتصادیاں پابندیاں ہی نہیں بلکہ تیل کی کم قیمتیں بھی روس کے غصے میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ 2015ء کے دوران روسی اقتصادی ترقی میں چار فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ تنخواہوں میں کمی اور ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی روبل کی قدر میں کمی کی صورت میں نکلا۔ اقتصادیات سے متعلق ایک تنظیم ’بلومبرگ‘ کے مطابق اس سال بھی روس کو کساد بازاری کا سامنا رہے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Druzhinin
مستقبل داؤ پر
نائجیریا افریقہ میں تیل کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔ نئے صدر محمدو بخاری نے انتخابات سے قبل ریاستی اخراجات میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا یہ انتخابی وعدہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی نذر ہو گیا۔ عالمی بینک کے مطابق اس ملک کو ایک تہائی آمدنی تیل کی فروخت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملک میں بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے بہت سے منصوبے تعّطل کا شکار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نئی حقیقت
صرف نائجیریا ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ممالک اپنے مالیاتی معاملات کا حساب کتاب تیل کی اونچی قیمتوں سے کرتے ہیں۔ تاہم کم قیمتوں کی وجہ سے ان ممالک کے ریاستی بجٹوں میں ایک خلاء سا پیدا ہو گیا ہے۔ 2014ء کے وسط سے تیل کی قیمتیں تقریباً 75 فیصد کم ہو چکی ہیں۔ ماہرین مستقبل قریب میں اس صورتحال کو بہتر ہوتا ہوا بھی نہیں دیکھ رہے۔
پابندیوں کے بعد
برآمدات پر پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد ایران روزانہ تقریباً ڈیڑھ ملین بیرل تیل عالمی منڈی کو مہیا کرے گا۔ اس طرح یہ ملک خود کو بھی نقصان پہنچائے گا کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی مقدار بڑھنے سے اس کی قیمتوں میں مزید کمی واقع ہو گی۔ تاہم تہران حکومت اپنے دشمن سعودی عرب کو ان کم قیمتوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Taherkenareh
اپنے ہی دام میں
سعودی عرب تیل کی پیداوار کم کرنے کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس طرح سعودی عرب تیل نکالنے کے شعبے میں امریکا اور اپنے حریف ملک ایران کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ تاہم اب تیل برآمد کرنے والا دنیا کا یہ سب سے بڑا ملک اپنے ہی دام میں پھنستا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے سعودی عرب کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر خسارے سے خبردار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Grimm
آخر کب تک؟
قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات کی صورتحال بھی سعودی عرب سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ مالیاتی ادارے جے پی مورگن کے اندازوں کے مطابق چھ خلیجی ریاستوں کے بجٹ کے خسارے کو اگر ایک ساتھ ملایا جائے تو یہ 260 ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: M. Naamani//AFP/Getty Images
انتقال اقتدار سے قبل
دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر لاطینی امریکی ملک وینزویلا کے پاس ہیں۔ ایک طویل عرصے تک ملک کی سوشلسٹ حکومت تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے اپنے سماجی منصوبوں کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتی رہی۔ تاہم اب صدر نکولس مادورو نے اقتصادی شعبے میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا ہے۔ انہیں ملک میں سیاسی میدان میں بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters
کھدائی، کھدائی اور کھدائی اور اب ؟
تیل تلاش کرنے کی جدید ٹیکنالوجی نے امریکا کو تیل کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بنا دیا ہے۔ تاہم ان کم قیمتوں کی وجہ سے انتظامیہ بہت سے آئل ٹرمینلز کو بند کرنے پر بھی مجبور ہو چکی ہے۔ امریکا توانائی کے استعمال کے حوالے سے بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ تیل کی انتہائی کم قیمتوں سے گاڑی چلانے والے افراد البتہ آج کل بے حد خوش ہیں۔