اوہ! گوگل پکچرز میں idiot لکھ کر سرچ کی جائے تو ۔ ۔ ۔
21 جولائی 2018
آج کل کوئی صارف گوگل سرچ انجن پر ’ایڈیٹ‘ (idiot) لکھ کر نتائج گوگل پکچرز میں دیکھے، تو وہ حیران رہ جاتا ہے۔ یہ سرچ آپ موبائل فون، ٹیبلٹ یا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر، جہاں سے بھی کریں، نتیجہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بہت سی تصاویر ہوں گی۔
اشتہار
جرمنی کے اقتصادی جریدے ’ہانڈلزبلاٹ‘، ہفت روزہ میگزین ’شٹَیرن‘ اور ’سرچ انجن لینڈ‘ نامی بلاگ کے ایک ہی طرح کے آن لائن مندرجات کے مطابق بظاہر دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن گوگل اس عمل کا نشانہ بنا ہے، جسے ’گوگل پر بمباری‘ یا Googlebombing کہتے ہیں۔
اس آن لائن ’بمباری‘ سے مراد ہیکرز کا ایک ایسا مقابلتاﹰ بے ضرر حملہ ہوتا ہے، جس کے ذریعے ہیکرز کسی بھی سرچ انجن اور وہاں تلاش کی جانے والی معلومات کے صارفین کو دکھائے جانے والے نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
جرمن اقتصادی روزنامے ’ہانڈلزبلاٹ‘ کے مطابق اس واقعے میں نامعلوم ہیکرز نے گوگل پکچرز میں صارفین کی طرف سے ’ایڈیٹ‘ (idiot) لکھے جانے کے بعد آن لائن سرچ کے نتائج میں ایسا دانستہ رد و بدل کر دیا ہے کہ کسی بھی آن لائن ڈئیوائس کی سکرین پر بہت زیادہ تعداد میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔
دوسرے لفظوں میں گوگل پکچرز پر یہ سرچ ایسے نتائج دکھاتی ہے کہ جیسے کسی صارف نے ’ایڈیٹ‘ نہیں بلکہ سرچ ونڈو میں ’ٹرمپ‘ یا ’ڈونلڈ ٹرمپ‘ کے لیے نتائج تلاش کیے ہوں۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
دنیا کے کئی ممالک کے ذرائع ابلاغ کی طرف سے اپنے اپنے طور پر کی گئی تحقیق کے مطابق یہ کام خود گوگل سرچ انجن کی مالک کمپنی گوگل کا نہیں بلکہ ایسے سرگرم لیکن نامعلوم آن لائن کارکنوں کا ہے، جنہوں نے ایسا کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں دراصل اپنی تنقیدی سوچ کا اظہار کیا ہے۔
جرمن جریدے ’شٹَیرن‘ (Stern) کے آن لائن ایڈیشن کے مطابق گوگل سرچ انجن پر ہیکرز کی یہ ’بمباری‘ اس امر کا ایک واضح ثبوت بھی ہے کہ آن لائن ہیکرز کس طرح بہت بڑے بڑے سرچ انجنوں کی کارکردگی کو نشانہ بناتے ہوئے کسی بھی سرچ کے نتائج پر اثرا نداز ہو سکتے ہیں۔
’سرچ انجن لینڈ‘ نامی بلاگ کے مطابق ایک بار جب ایسا ہو گیا تو اس بارے میں میڈیا میں کی جانے والی رپورٹنگ کے بعد عام صارفین نے جب خود اس سرچ کا تجربہ کرنے کی کوشش کی، تو اس رجحان کو مزید تقویت ملی، یوں ’ایڈیٹ‘ لکھے جانے پر گوگل پکچرز سرچ نے امریکی صدر ٹرمپ کی بہت سی تصاویر دکھانے کے ساتھ ساتھ انہی تصاویر کو ’سو فیصد درست نتائج‘ کی حیثیت سے اولین نتائج کے طور پر بھی دکھانا شروع کر دیا۔
م م / ا ا / ہانڈلزبلاٹ، شٹَیرن، سرچ انجن لینڈ
SMS کی 25 ویں سالگرہ
25 برس قبل آج ہی کے دن یعنی تین دسمبر 1992 کو اولین ایس ایم ایس بھیجا گیا تھا۔ موبائل کمپنیوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اربوں روپے کمائے۔ لاتعداد انٹرنیٹ ایپلیکیشنز کے باوجود مختصر SMS آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/Maule/Fotogramma/ROPI
ایس ایم ایس کی دنیا
تین دسمبر 1992ء کو 22 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر نائل پاپورتھ نے دنیا کا پہلا ایس ایم ایس پیغام اپنے ساتھی رچرڈ جاروِس کو ارسال کیا تھا۔ نائل پاپورتھ ووڈا فون کے لیے شارٹ میسیج سروس کی تیاری پر کام کر رہے تھے۔
تصویر: DW/Brunsmann
’’میری کرسمس‘‘
25 سال پہلے کے سیل فون بھی ایس ایم ایس بھیج یا وصول نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا پہلے ایس ایم ایس کو موبائل فون سے نہیں بلکہ کمپیوٹر سے بھیجا گیا تھا۔ ایس ایم ایس سسٹم کے پروٹوٹائپ کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ووڈا فون کمپنی کے تکنیکی ماہرین کا پہلا ایم ایم ایس تھا، ’’میری کرسمس‘‘.
تصویر: Fotolia/Pavel Ignatov
160 کریکٹرز کی حد
ایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔
تصویر: DW
ٹیلیفون کمپنیوں کی چاندی
1990ء کے وسط میں، ایس ایم ایس تیزی سے مقبول ہوا اور اس کے ساتھ، ٹیلی فون کمپنیوں نے بڑا منافع حاصل کیا۔ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012 میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ جرمنی میں، ایس ایم ایس بھیجنے کے 39 سینٹ تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
اسمارٹ فونز
اسمارٹ فون مارکیٹ میں آنے کے بعد، ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ایسا 2009 میں شروع ہوا۔ ٹوئیٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے۔
تصویر: Fotolia/bloomua
اعتماد کا رابطہ
ایس ایم ایس ابھی بھی جرمنی میں مقبول ہے۔ وفاقی مواصلات ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء کے دوران 12.7 بلین ایس ایم ایس پیغامات موبائل فونز سے بھیجے گئے۔ جرمنی میں اب بھی میل باکس کے پیغامات اور آن لائن بینکنگ سے متعلق بہت سے اہم کوڈ ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی بھیجے جاتے ہیں۔