ايرانی حکام کا مظاہرين کے خلاف 'فيصلہ کن‘ کارروائی کا عنديہ
18 جولائی 2020
ایران میں تين حکومت مخالف مظاہرين کو سزائے موت سنائے جانے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں اور سوشل میڈیا پر ’پھانسی مت دو‘ کے نام سے مہم بھی جاری ہے۔
اشتہار
ایران میں سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں ’معمول کے منافی‘ نعرے بازی کی جا رہی تھی جس پر قابو پانے کے لیے پولیس نے کارروائی کی۔ سکیورٹی حکام کی جانب سے ایک بیان میں کہا گيا ہے کہ آئندہ اس طرح کے مظاہروں کے خلاف سخت اور فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی۔
ایران میں ملک کی معاشی بدحالی کے خلاف گزشتہ برس نومبر کی طرح بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گيا ہے۔ گرشتہ برس کے احتجاجی مظاہروں کے دوران سکیورٹی کی سخت کارروائی میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ گزشتہ برس کے مظاہروں میں ملوث ہونے پر تین افراد کو عدالت نے موت کی سزا سنائی ہے اور اس کے خلاف بھی سڑکوں پر مظاہروں کے ساتھ ساتھ آن لائن احتجاج کیا جا رہا ہے۔
ایران سے باہر رہنے والے ایرانیوں نے بھی اس کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور موت کی سزا کے خلاف ’ڈونٹ اکزیکیوٹ‘ یعنی پھانسی مت دو کے نام سے مہم شروع کر رکھی ہے۔ جون کے اواخر میں ایک عدالت نے ایرانی صحافی روح اللہ زام کو اس الزام میں موت کی سزا سنائی تھی کہ ان کے مواد سے 2017 کے حکومت مخالف مظاہروں کو ہوا ملی تھی۔
واشنگٹن میں مقیم وائس آف امریکا کے لیے کام کرنے والی ایرانی صحافی اور کارکن مسیح علی النژاد نے عالمی برادری اور صحافیوں کو بھی ایرانی عوام کی اس جد و جہد میں شامل ہونے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ خاموش رہیں گے تو مزید افراد کو پھانسی دی جائے گی‘۔
علی نژاد نے اس سے قبل اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ ان کے بھائی کو سوشل میڈیا پر موجودہ حکومت کی نکتہ چینی کرنے کے لیے آٹھ برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا، ’’میرا بھائی بےگناہ ہے، ایرانی حکومت نے مجھے میری سرگرمیوں کی سزا دینے کے لیے اسے اغوا کر لیا ہے۔‘‘
گزشتہ برس کے مظاہروں میں شامل ہونے والے جن تین افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے اس کے خلاف اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ایک گروپ نے بھی آواز اٹھائی ہے اور ایران سے موت کی سزا کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔
ایرانی حکام کا الزام ہے کہ ملک دشمن عناصر کی حانب سے ملک میں بد امنی پھیلانے کے مقصد سے لوگوں میں عدم اطمينان کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے عوام سے کہا ہے کہ وہ
انقلاب کے خلاف کسی بھی تحریک کو بہانہ فراہم کرنے والے کسی بھی اجتماع سے ہوشیار اور اس میں شرکت سے باز رہیں۔
ایران عام طور پر ملک میں اس طرح کی بے چینی اور عوامی مظاہروں کے لیے امریکا اور اسرائیل جیسے ممالک کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ امریکا کی جانب سے عائد پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت پہلے سے ہی تباہ حال تھی اور کورونا وائرس کی وبا نے تو اس کی رہی سہی کمر بھی توڑ دی ہے۔ کووڈ 19 سے ایران میں اب تک 14 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ص ز/ ع س (اے ایف پی روئٹرز)
ایران میں خامنہ ای مخالف مظاہرے
ایرانی حکومت کی جانب سے یوکرائنی ہوائی جہاز کو غلطی سے مار گرانے کو تسلیم کرنے پر عوام نے اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے دارالحکومت ایران سمیت کئی دوسرے شہروں میں کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NurPhoto/M. Nikoubaz
تہران میں مظاہرے
ایرانی دارالحکومت تہران میں سینکڑوں افراد حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہے۔ یہ مظاہرین ایرانی حکومت کے خلاف زور دار نعرے بازی کرتے رہے۔ ان مظاہرین کو بعد میں ایرانی پولیس نے منتشر کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
امیر کبیر یونیورسٹی
تہران کی دانش گاہ صنعتی امیر کبیر (Amirkabir University of Technology) ماضی میں تہران پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ گیارہ جنوری سن 2020 کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اس یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/R. Fouladi
ایرانی مظاہرین کا بڑا مطالبہ
یونیورسٹی طلبہ کا سب سے اہم مطالبہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی دستبرداری کا تھا۔ ان مظاہرین نے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر کو پھاڑا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مظاہروں کا نیا سلسلہ
گیارہ جنوری کو مظاہرے تہران کے علاوہ شیراز، اصفہان، حمدان اور ارومیہ میں بھی ہوئے۔ امکان کم ہے کہ ان مظاہروں میں تسلسل رہے کیونکہ پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہروں کو ایرانی حکومت نے شدید انداز میں کچل دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
برطانوی سفیر کی تہران میں گرفتاری و رہائی
ایرانی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق سفیر کی گرفتاری مظاہروں میں مبینہ شرکت کا نتیجہ تھی۔ ایرانی دارالحکومت تہران میں متعین برطانوی سفیر راب میک ایئر نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے مظاہرے میں قطعاً شریک نہیں تھے۔ سفیر کے مطابق وہ یونیورسٹی کے باہر یوکرائنی مسافروں کے لیے ہونے والے دعائیہ تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
تصویر: gov.uk
یوکرائنی طیارے کے مسافروں کی یاد
جس مسافر طیارے کو غلطی سے مار گرایا گیا تھا، اُس میں امیر کبیر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ بھی سوار تھے۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے مظاہرے کے دوران اُن کی ناگہانی موت پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
سابق طلبہ کی یاد میں شمعیں جلائی گئیں
تہران کی امیرکبیر یونیورسٹی کے طلبہ نے یوکرائنی ہوائی جہاز میں مرنے والے سابقہ طلبہ اور دیگر ہلاک ہونے والے ایرانی مسافروں کی یاد میں یونیورسٹی کے اندر شمعیں جلائیں۔ یوکرائنی مسافر بردار طیارے پر نوے سے زائد ایرانی مسافر سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مہدی کروبی کا مطالبہ
ایران کے اہم اپوزیشن رہنما مہدی کروبی نے بھی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خامنہ ای یوکرائنی کمرشل ہوائی جہاز کی تباہی کے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کروبی ایران میں اصلاحات پسند گرین موومنٹ کے رہنما ہیں۔
تصویر: SahamNews
ڈونلڈ ٹرمپ اور ایرانی مظاہرین
ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران حکومت خبردار کیا ہے کہ وہ ان مظاہرین پر ظلم و جبر کرنے سے گریز کرے۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ بہادر ایرانی مظاہرین کے ساتھ ہیں جو کئی برسوں سے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق ایرانی حکومت پرامن مظاہرین کا قتل عام کر سکتی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ دنیا کی اس پر نظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہرے
گزشتہ برس نومبر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کئی بڑے ایرانی شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو سخت حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا تھا۔ یہ ایران میں چالیس سالہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے شدید مظاہرے تھے۔ بعض ذرائع اُن مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ بیان کرتے ہیں۔ تصویر میں استعمال کیے جانے والے کارتوس دکھائے گئے ہیں۔