ايران اور شام پر يورپی يونين کی مزيد پابندياں
2 دسمبر 2011يورپی يونين نے جمعرات يکم دسمبر کو ايران اور شام پر جو نئی پابندياں لگائی ہيں، اُن کے تحت شام کے مزيد بارہ اہم افراد کو يورپی يونين ميں داخل ہونے کی اجازت نہيں ہو گی۔ اس کے علاوہ اُس کے گيارہ تجارتی اداروں کو يورپی يونين سے تجارت کرنے کی اجازت نہيں ہو گی۔ مالياتی شعبے ميں بھی بعض پابندياں لگا دی گئی ہيں۔ اس طرح يورپی يونين شامی صدر بشار الاسد کو اس پر آمادہ کرنا چاہتی ہے کہ وہ اپوزيشن پر جبر ختم کر ديں۔
يورپی يونين نے ايران کے مزيد 180 افراد اور تجارتی اداروں کو بليک لسٹ ميں شامل کر ليا ہے۔ يورپی يونين کے وزرائے خارجہ نے يہ فيصلہ بين الاقوامی ايٹمی توانائی ايجنسی کی اُس حاليہ رپورٹ کی روشنی ميں کيا ہے، جس ميں کہا گيا ہے کہ ايران ايٹم بم تيار کرنے ميں مصروف ہے۔
ليکن يورپی وزرائے خارجہ نے اس پر زور ديا ہے کہ ان نئی پابنديوں کا تہران ميں برطانوی سفارتخانے پر حملے سے کوئی تعلق نہيں ہے۔ تاہم وزرائے خارجہ نے برطانوی سفارتخانے پر حملے کی مذمت کی۔ جرمن وزير خارجہ نے کہا کہ ايک رياست پراس کی حدود کے اندر سفارتی نمائندوں کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ برطانوی وزير خارجہ ہيگ نے يورپی يونين کے وزرائے خارجہ کے اس اظہار يکجہتی پر اطمينان ظاہر کيا۔
يورپی يونين توانائی اور مالياتی شعبوں ميں بھی ايران اور شام پر پابندياں لگانے کی تياری کر رہی ہے۔ توانائی اور مالی شعبوں ميں لگائی جانے والی پابنديوں کا اثر ايران پر پہلے سے عائد کی گئی پابنديوں سے کہيں زيادہ شديد ہو گا۔ ليکن ايرانی تيل کی خريد پر پابندی يورپی يونين کے بعض ممالک کو مشکلات سے دوچار کر دے گی، کيونکہ يونان اور اٹلی اپنی تيل کی ضرورت کا بہت بڑا حصہ ايران سے درآمدات کے ذريعے پورا کرتے ہيں۔
لکسمبرگ کے وزير خارجہ آسل بورن نے شام ميں اپوزيشن کے کچلے جانے اور شام کے دوست ہمسايہ ملک ايران کے مابين ايک ربط کی طرف اشارہ کيا: ’’يہ ممکن ہے کہ شام کی ايک نئی حکومت ايران کی اتنی وفادار نہ ہو جتنی کہ موجودہ حکومت ہے۔‘‘
شام پر پابندياں يورپی يونين اور عرب ليگ نے باہمی صلاح مشورے سے لگائی ہيں اور کل برسلزميں يورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس ميں عرب ليگ کے جنرل سيکرٹری نبيل العربی بھی شريک تھے۔
رپورٹ: کرسٹوف ہاسل باخ، برسلز / شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی