ايران جوہری ہتھياروں کے حصول سے چند ہفتے دور، اسرائيلی وزراء
5 اگست 2021
اسرائيلی اعلیٰ قيادت نے دعویٰ کيا ہے کہ ايران جوہری ہتھياروں کے حصول سے صرف دس ہفتے دور ہے۔ مبصرين کی رائے ميں ايران اور اسرائيل ’خفيہ جنگ‘ جاری رکھے ہوئے ہيں اور مستقبل قريب ميں صورت حال مزيد بگڑ سکتی ہے۔
اشتہار
اسرائيلی وزير خارجہ ييئر لپيڈ اور وزير دفاع بينی گانٹر نے دعویٰ کيا ہے کہ اگر ايران چاہے، تو صرف دس ہفتوں کے اندر اندر جوہری ہتھيار تيار کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق يہ سن 2015 ميں عالمی قوتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہو گی۔ اسرائيلی وزراء نے چار اگست کو جاری کردہ تفصيلی بيان ميں يہ الزام بھی عائد کيا کہ 'ميرسر اسٹريٹ‘ نامی آئل ٹينکر پر حاليہ حملے ميں ايران ملوث تھا۔ ايرانی پاسداران انقلاب کے ايک سينئر اہلکار پر براہ راست انگلی اٹھائی گئی ہے۔
اشتہار
حاليہ حملوں کا پس منظر
رواں سال چوبيس اپريل کو شامی بندرگاہ بانياس پر ايک ايرانی آئل ٹينکر پر ڈرون حملہ کيا گيا تھا جس ميں تين افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ ٹينکر بھی آتش زدگی کا شکار ہو گيا تھا۔ يہ ايران کی اسرائيل اور اس کے خليجی پڑوسی ملکوں کے ساتھ کشيدگی کی تازہ ترين مثال تھی۔
اب ايران ميں سخت گير نظريات کی حامل قوتيں حکومت ميں ہيں۔ ايسے ميں يہ تنازعہ شدت اختيار کرتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دن خليج عمان ميں اسرائيلی آپريٹر کے ايک تجارتی بحری جہاز پر حملہ ہوا جس کے ليے ايران کو قصور وار ٹھہرايا جا رہا ہے۔ اسی ہفتے منگل کو ايک بحری جہاز کو ہائی جيک کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔
اسرائيل اور ايران کے تنازعے کی ايک کليدی وجہ ايران کا متنازعہ جوہری پرگرام ہے۔ دس اپريل کو ايران کے مرکزی نطنز کے جوہری پلانٹ پر ايک سائبر حملہ ہوا۔ امريکی اخبار 'دا نيو يارک ٹائمز‘ کے مطابق اس حملے ميں ايک پاور پلانٹ اور سينٹريفيوجز کو نقصان پہنچا، تہران حکومت نے اسرائيل پر الزام عائد کرتے ہوئے اسے 'جوہری دہشت گردی‘ قرار ديا۔
صدر جو بائيڈن کی قيادت ميں امريکی حکومت ايران کے ساتھ از سر نو ايک ڈيل تشکيل دينا چاہتی ہے ليکن اس ضمن ميں مذاکراتی عمل تعطلی کا شکار ہے۔ اب جبکہ ابراہيم رئيسی صدر کے منصب پر فائض ہو رہے ہيں، ايران کے موقف اور حکمت عملی ميں سختی متوقع ہے۔ انہيں سپريم ليڈر آيت اللہ علی خامنہ ای کی حمايت حاصل ہے، جو بارہا کہتے آئے ہيں کہ امريکا کے ليے آئندہ کی کسی ممکنہ ڈيل سے يک طرفہ عليحدگی اختيار کرنا ممکن نہ ہو گا۔ ايران چاہتا ہے کہ بائيڈن انتظاميہ يہ يقين دہانی کرائے اور اس کی بھی کہ مزيد پابنديوں کا اعلان نہيں کيا جائے گا۔ يہ وہ معاملہ ہے، جسے کانگريس سے منظور کرانے ميں بائيڈن انتظاميہ کو يقيناً مشکل پيش آئے گی۔
يہ امر اہم ہے کہ سن 2015 ميں جوہری ڈيل کو حتمی شکل ديے جانے سے پہلے کے کچھ عرصے ميں بھی ايران اور اسرائيل کے مابين شديد کشيدگی جاری تھی۔ تہران ميں ايک جوہری سائنسدان کا مبينہ قتل، نئی دہلی ميں اور بينکاک ميں اسرائيلی سفارت کارروں پر مشتبہ ايرانی حملے اور بلغاريہ ميں اسرائيلی سياحوں کی بس پر دھماکا يہ سب واقعات اسی دور کے ہيں۔ سن 2018 ميں امريکا کی جوہری ڈيل سے عليحدگی کے بعد گزشتہ ايک دو برسوں کے دوران اسی طرز کے حملوں ميں اضافہ ديکھا گيا ہے۔ دو برس قبل خليج کے خطے ميں آئل ٹينکروں پر حملے ديکھے گئے۔ اب ديکھنا يہ ہے کہ ايران ميں نئی انتظاميہ کيا حکمت عملی اختيار کرتی ہے۔
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔