1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايمسٹرڈيم کا ريڈ لائٹ ڈسٹرکٹ ويران، جسم فروش بے يار مددگار

12 جون 2020

کورونا وبا کے باعث صحت سے متعلق قوائد و ضوابط کی وجہ سے ايمسٹرڈيم کا ریڈ لائٹ ایریا اور يہ صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ حکومتی امداد کی منتظر جسم فروش خواتين گزر بسر کے ليے خطرناک طرز عمل اختيار کرنے پر مجبور ہيں۔

Prostituierte Symbolbild
تصویر: AFP/Getty Images

جينيٹ ايمسٹرڈيم کی ايک تنگ و تاريک گلی کی طرف اشارہ کر کے کہتی ہے،''اب ان گليوں ميں کوئی نہيں دکھتا۔‘‘ ہالينڈ کے شہر ايمسٹرڈيم کے مشہور زمانہ ريڈ لائٹ ڈسٹرکٹ ميں جينيٹ سيکس پارٹياں منعقد کرتی تھی۔ ايسی پارٹياں جہاں وہ اور اس کی سہيلياں شرکت کرنے والوں کے ساتھ رقم کے عوض انفرادی يا گروپ کی صورت ميں جنسی عوامل کيا کرتی تھيں۔ اب ايسے تمام ہی اجتماعات پر پابندی عائد ہے۔ ديگر جسم فروشوں کی طرح اس نے بھی متعلقہ ادارے ميں بے روزگاری الاؤنس کے ليے درخواست دے رکھی ہے مگر ابھی تک کوئی جواب موصول نہيں ہوا۔ نوبت يہاں تک آن پہنچی ہے کہ مکان کے کرايے کے ليے اب جينيٹ غير قانونی طور پر کام کر رہی ہے۔

جينيٹ نے 'ايسکورٹ‘ کے طور پر اپنے گھر پر ہی کام شروع کر ديا ہے۔ صارفين عموماً ايسے لوگ ہيں، جنہيں وہ عرصے سے جانتی ہے۔ ''ميں حفاظتی وجوہات کی بنا پر زيادہ لوگوں سے نہيں ملتی۔‘‘ جينيٹ مسکراتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر وہ چاہے، تو دن کے چوبيس گھنٹے کام جاری رکھ سکتی ہے۔ اس کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ وبائی مرض کے باوجود، اب بھی لوگوں کی ايک بہت بڑی تعداد جنسی تسکين کے ليے رقم کے عوض جسم فروشوں کی خدمات حاصل کرنے کے ليے تيار ہيں۔ اس کے بقول پابنديوں اور لاک ڈاون کا يہ مطلب نہيں کہ لوگوں کی جنسی عمل کی خواہش مر گئی ہے۔

ہالينڈ ميں سیکس انڈسڑی نئے کورونا وائرس کی وبا سے بری طرح متاثر ہوئے ہيں۔ حکومت نے ہنگامی امداد کا ايک پروگرام تو لانچ کيا ہے مگر کئی لوگ اس ميں اندارج نہيں کرا سکے۔ کچھ کو درخواست جمع کرانے ميں مشکلات کا سامنا ہے۔ ايسے ميں کئی لوگ غير قانونی طريقوں سے کام کر رہے ہيں، جس نے نہ صرف انہيں بلکہ ان کے اہل خانہ اور صحت عامہ کو بھی خطرات لاحق ہيں۔

مارسکا خود ايک نرس کے طور پر رجسٹرڈ ہيںتصویر: DW/S. Derks

ڈچ نيشنل انسٹيٹيوٹ فار پبلک ہيلتھ نے جسم فروشی اور قحبہ خانوں پر کم از کم ستمبر تک پابندی عائد کر رکھی ہے۔ 'پراسٹيٹيوسن انفارميشن سينٹر‘ کی نمائندہ اور خود بھی ايک جسم فروش مارسکا بتاتی ہيں کہ يہ پابندی ان کے پيشے سے وابستہ افراد کے ليے تباہ کن ہے۔ مارسکا کے مطابق کئی جسم فروش خواتين نے ايمرجنسی فنڈنگ کے ليے درخواست بھی نہيں جمع کرائی کيونکہ وہ اس بارے ميں شکوک و شبہات ميں مبتلا ہيں کہ وبا کے بعد حکام ان کے ڈيٹا کا کيا کريں گے۔ ''جسم فروشی کی گو کہ يہاں اجازت ہے مگر اس پر جرم اور بدنامی کے کالے بادل چھائے ہوئے ہيں۔‘‘

ہالينڈ ميں اسی وجہ سے کئی جسم فروش خواتين اپنا اندارج مختلف پيشوں سے کراتی ہيں۔ مارسکا خود ايک نرس کے طور پر رجسٹرڈ ہيں۔ يہ صورت حال جسم فروشوں کے ليے رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر چونکہ مارسکا نرس کے طور پر رجسٹرڈ ہيں اور ان دنوں نرسيں کام کر سکتی ہيں، انہيں ايمرجنسی الاونس کے ليے درخواست جمع کرانے کی اجازت نہيں۔ ايسی ہی کئی رکاوٹيں خواتين کو مجبور کر رہی ہيں کہ وہ قانونی دائرے سے باہر اپنا کام جاری رکھيں۔ ايک جسم فروش کی ہی جانب سے شروع کردہ PROUD نامی ايک مہم، جسم فروشوں کی معمولی سی مدد کرتی ہے مگر وہ کافی نہيں۔

اس رپورٹ میں شناخت مخفی رکھنے کے لیے تمام خواتین کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

دہلی کے قحبہ خانوں کا کیا حال ہے؟

03:31

This browser does not support the video element.

انگرڈ گارسيما، سانے ڈرکس )ع س / ع ا(

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں