بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے منہدم بابری مسجد کی بدلے میں ايودھیا میں دی گئی زمین پر منگل چھبیس جنوری کو ’مسجد‘ کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ مسلم تنظیموں نے اس سنگ بنیاد کو ”غیر شرعی اور غیر قانونی“ قرار دیا ہے۔
اشتہار
نئی 'مسجد‘ کا نام انگریزوں کے خلاف 1857ء کی جنگ میں شریک احمد اللہ شاہ کے نام پر رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارتی مسلمان بابری مسجد پر اپنے حق سے کبھی دست بردار نہیں ہوں گے اور وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ جس جگہ مسجد تھی وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہے۔
شریعت کی خلاف ورزی
بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے نئی 'مسجد‘ کے سنگ بنیاد سے خود کو الگ کرتے ہوئے کہا کہ یہ قدم نہ صرف 'شریعت‘ کے خلاف بلکہ بھارت کے وقف قانون کے بھی خلاف ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے سینیئر رکن اور سپریم کورٹ کے وکیل ظفر یاب جیلانی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' اگر کوئی غیر شرعی کام ہو رہا ہے تو ہم اس کو طاقت سے تو روک نہیں سکتے۔ جو ایسا کر رہا ہے وہ اس کا ذمہ دار ہے اور یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اس مسجد میں کوئی مسلمان نماز پڑھے گا یا نہیں۔‘‘
ظفر یاب جیلانی کامزید کہنا تھا،”پرسنل لاء بورڈ نومبر 2019ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی کہہ چکا ہے کہ مسجد کے بدلے میں کوئی زمین نہیں لی جا سکتی کیوں کہ شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن بھی داخل کی تھی لیکن عدالت عظمی نے اس پر غور کیے بغیر ہی اسے خارج کر دیا۔ تاہم ہمارا آج بھی وہی موقف ہے کہ مسجد کے بدلے کوئی زمین نہیں لی جا سکتی۔"
'مسلمان فیصلے پر خوش ہیں‘
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ مودی حکومت دنیا کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ بھارت کے مسلمان بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے خوش ہیں۔ ظفر یاب جیلانی کا کہنا تھا،”حکومت صرف یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے کوئی اختلاف نہیں، حکومت، بھارت سے زیادہ بیرونی ملکوں کو یہ دکھانا چاہتی ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ناراضگی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ اس فیصلے سے نوے فیصد سے زیادہ مسلمان ناراض ہیں۔ لیکن چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون ہوتا ہے اس لیے ماننے کے لیے مجبور ہیں۔"
اشتہار
متنازعہ فیصلہ
سپریم کورٹ نے گزشتہ برس اپنے ایک اہم اور متنازعہ فیصلے میں منہدم بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کو ايودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا تھا۔ حکومت نے ايودھیا ضلع کے دھنی پور گاؤ ں میں مسجد کے لیے پانچ ایکڑ زمین مختص کی ہے۔
مسجد کے قیام کے لیے حکومت کی طرف سے قائم کردہ ٹرسٹ انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کے سکریٹری اطہر حسین کا کہنا تھا”مسجد کے لیے مقررہ زمین پر یوم جمہوریہ (چھبیس جنوری) کے موقع پر قومی پرچم لہرایا جائے گا اور شجر کاری کی جائے گی۔ ماہرین وہاں کی مٹی کو لیباریٹری میں ٹسٹ کرنے کے لیے لے جائیں گے۔"
بابری مسجد انہدام کیس: مجرم کون؟
بھارت کے اجودھیا میں 6 دسمبر1992 کوتقریباً 400 سالہ قدیم تاریخی بابری مسجد کو منہدم کردینے کے کیس میں لکھنؤ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت 30 ستمبر کو فیصلہ سنانے والی ہے۔
تصویر: AP
انتظار کی گھڑی ختم
بابری مسجد کے انہدام کے تقریباً 28 برس بعد عدالت یہ فیصلہ سنانے جارہی ہے کہ اس مسجد کو منہدم کرنے کی سازش کرنے والوں میں کون کون لوگ شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D .E. Curran
کون مجرم ہے؟
سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، بی جے پی کے رہنما مرلی منوہر جوشی، اومابھارتی، ونئے کٹیار،کلیان سنگھ، سادھوی رتھمبرا 32 ملزمین میں شامل ہیں۔ دیگر ملزمین میں اشوک سنگھل، گری راج کشور، وشنو ہری ڈالمیا وفات پاچکے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
کیا ہوگا انجام
بابری مسجد انہدام میں دو کیس دائر کیے گئے۔ ایک لاکھوں نامعلوم ’کارسیوکوں‘ کے خلاف اور دوسرا انہدام کی سازش تیار کرنے والے آٹھ افراد کے خلاف۔ شدت پسند ہندووں کی طر ف سے صحافیوں پر حملوں کے 47 مزید کیس بھی دائر کیے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. E. Curran
سینکڑوں ہلاکتیں
بابری مسجد کے انہدام کے بعد پورے بھارت میں فسادت پھوٹ پڑے تھے۔جن میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 1800افراد مارے گئے۔ تاہم ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ بتائی جاتی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
دیرینہ مطالبہ
مسلمان بابری مسجد کے قصورواروں کے خلاف کارروائی کا ایک عرصے سے مطالبہ کررہے ہیں۔ وہ ہر برس چھ دسمبر کو ’یوم سیاہ‘ مناتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Ghosh
نئی شناخت
قوم پرست ہندو تنظیمیں 6 دسمبر کو ’یوم شجاعت‘ کے طور پر مناتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دن بھارت میں ہندووں کو ایک نئی شناخت ملی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
رام مندر
منہدم بابری مسجد کی جگہ اب ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 5 اگست 2020 کو اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ ایک برس قبل اسی دن جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی گئی تھی۔
تصویر: AFP/P. Singh
کچھ بچا تو نہیں نا؟
لال کرشن اڈوانی نے اپنی خودنوشت ’میراوطن میری زندگی‘ میں لکھا ہے کہ جب بابری مسجد منہدم ہوجانے کے بعد وہ اجودھیا سے لکھنؤ جارہے تھے تو ایک اعلی سرکاری افسر نے ا ن سے پوچھا ”اڈوانی جی، کچھ بچا تو نہیں نا؟ بالکل صاف کردیا نا؟“
تصویر: AFP/Getty Images
سماجی تانا بانا تباہ
اڈوانی نے رتھ یاترا کے دوران اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے بھارت کے سماجی تانے بانے کوتباہ کردیا۔ ہندووں اور مسلمانوں میں نفرت کی جو خلیج پیدا ہوئی وہ مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔
تصویر: Fotoagentur UNI
مجھ پرجھوٹا الزام
سابق وفاقی وزیر مرلی منوہر جوشی کا کہنا ہے کہ انہیں بابری مسجد انہدام کیس میں جھوٹا پھنسایا جارہا ہے۔ وہ انہدام کے سلسلے میں سازش نہیں کی تھی۔ حالانکہ انہدام کے وقت کی تصویروں میں وہ مسجد سے تھوڑ ی دور پر اوما بھارتی کے ساتھ انتہائی مسرت کا اظہار کرتے نظر آرہے تھے۔
تصویر: AP
معافی نہیں مانگوں گی
سابق وزیر سادھوی اوما بھارتی نے بھی ہندووں کے جذبات بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا تھا۔ اوما بھارتی کا کہنا ہے کہ اجودھیا تحریک میں شامل ہونے پر انہیں فخر ہے اور اگر انہیں پھانسی کی سزا بھی دی گئی تو وہ معافی نہیں مانگیں گی۔
تصویر: Fotoagentur UNI
حلف نامے کی خلاف ورزی
بابری مسجد انہدام واقعہ کے دوران اترپردیش کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے کہا تھا کہ وہ مسجد کو کوئی نقصان پہنچنے نہیں دیں گے۔
تصویر: AP
وعدہ تیرا وعدہ
کانگریسی وزیر اعظم پی وی نرسمہا راو نے 7 دسمبر1992 کو بابری مسجد کواسی جگہ دوبارہ بنانے کا وعدہ کیا۔ لیکن یہ صرف وعدہ ہی رہا۔ اڈوانی کے مطابق’نرسمہاراو اور ان کی کانگریس پارٹی نے ہندووں اورمسلمانوں دونوں کا اعتماد کھودیا۔‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo
کانگریس بھی بے داغ نہیں
بابری مسجد انہدام کے لیے بی جے پی کے ساتھ ہی کانگریس پارٹی کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے بابری مسجد کا تالہ کھلوا کر وہاں پوجا کی اجازت دے کر ایک نئے تنازعہ کی بنیاد رکھ دی۔
تصویر: Imago/Sven Simon
ایک ووٹ یعنی ایک اینٹ
بابری مسجد۔رام جنم بھومی بھارت میں اب بھی ایک اہم سیاسی موضوع ہے۔ بہار میں اگلے ماہ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ پارٹی کے لیے ہر ایک ووٹ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک اینٹ کی طرح ہوگا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Armangue
سزا یا باعزت بری
اب پورے بھارت کی نگاہیں 30 ستمبر کو عدالت کے فیصلے کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ آیا بابری مسجد کے انہدام کے مجرموں کو سزا ملے گی یا انہیں باعزت بری کردیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
سکیورٹی انتظامات
حکومت نے کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام ریاستوں کو سکیورٹی انتظامات بڑھادینے کی ہدایت دی ہے۔
تحریر: جاوید اختر
تصویر: UNI
17 تصاویر1 | 17
انہوں نے مزید بتایا،”مسجد تعمیر کے لیے ٹرسٹ ايودھیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں نقشہ جمع کرایا جائے گا اور نقشے کی منظوری ملنے نیز مٹی کی جانچ رپورٹ آنے کے بعد مسجد کی تعمیر کا باضابطہ آغاز کر دیا جائے گا۔"
مسجد کا نام احمد اللہ شاہ
انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کے مطابق نئی 'مسجد‘ کا نام 1857ء میں برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرنے والے مولوی احمد اللہ شاہ کے نام پر رکھا جائے گا۔
فاؤنڈیشن کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ مزید تبادلہ خیال کے بعد اس نام کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا، ”یوں تو مسجد کے لیے کئی نام پیش کیے گئے تھے لیکن احمد اللہ شاہ کے نام پر بیشتر لوگوں کا اتفاق ہے۔ جو کہ مولوی فیض آبادی کے نام سے بھی مشہور ہیں۔"
حکومت کی طرف سے قائم اس فاؤنڈیشن نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ نئی مسجد کا نام کسی مغل بادشاہ کے نام پر نہیں رکھا جائے گا۔
مورخین کا کہنا ہے کہ مولوی احمد اللہ شاہ 1787ء میں پیدا ہوئے تھے اور 5 جون 1858ء کو ان کی وفات ہو گئی تھی۔ وہ ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کی روشن مثال اور اجودھیا کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھے۔1857ء کی بغاوت کے دوران کانپور کے نانا صاحب اور آرہ کے کنور سنگھ جیسے افراد ان کے پرچم تلے انگریزوں سے لڑے تھے۔ صوبیدار گھمنڈی سنگھ اور صوبیدار امراو سنگھ ان کی فوج کے کمانڈروں میں شامل تھے۔
بابری مسجد کے انہدام کو ستائیس سال ہو گئے، بھارت میں مظاہرے