1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايپک اجلاس: ’خطے ميں آزاد تجارت‘ مرکزی موضوع

عاصم سليم11 نومبر 2014

چينی دارالحکومت ميں پیر سے شروع ہونے والی سالانہ ’ايشيا پيسيفک اکنامک کوآپريشن‘ يا ايپک سمٹ کا آج دوسرا اور آخری دن ہے۔ ايشيا پيسيفک خطے ميں آزاد تجارت کو یقینی بنانے کی کوشش بات چيت کے دوران کليدی اہميت کی حامل رہے گی۔

تصویر: picture-alliance/dpa/Sergei Ilnitsky

اکيس رکنی ايپک کے اجلاس کا باقاعدہ آغاز بيجنگ ميں پير دس نومبر کی رات منعقدہ ايک عشائيے سے ہوا تھا۔ کليدی موضوعات پر بات چيت آج بروز منگل ہو گی اور رکن ممالک کے رہنما اس مقصد کے ليے چينی دارالحکومت کے نواحی علاقے ميں واقع ايک نہر کے کنارے ايک دلکش مقام پر جمع ہو رہے ہيں۔

خبر رساں ادارے اے ايف پی کی بيجنگ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق پورے ايشيا پيسيفک کے خطے ميں آزادانہ بنيادوں پر تجارت کے حوالے سے مختلف ممالک کے رہنماؤں ميں اختلافات پائے جاتے ہيں اور منگل کی گفتگو ميں يہی اختلافات دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

چينی صدر شی جن پنگ اور جاپانی وزير اعظم شينزو آبےتصویر: Kim Kyung-Hoon-Pool/Getty Images

چين کی خواہش ہے کہ اجلاس ميں ’فری ٹريڈ آف دا ايشيا پيسيفک‘ يا (FTAAP) کو آگے بڑھانے کے ليے مضبوط تر عزم کی تائيد ہو سکے۔ يہ ايک طويل المدتی مجوزہ منصوبہ ہے، جس کی مدد سے پورے خطے ميں آزاد تجارت ممکن ہو سکے گی جبکہ اس منصوبے ميں امريکا کے حمايت يافتہ ’ٹرانس پيسيفک پارٹنرشپ‘ يا (TTP) جيسے منصوبوں کے چند نکات کو بھی شامل کيا گيا ہے۔

اس کے برعکس امريکا ايک عرصے سے ٹرانس پيسيفک پارٹنرشپ کے ليے کوششيں کرتا آيا ہے، جو تجارت پر لاگو پابنديوں ميں نرمی کے ليے ہے۔ اس مجوزہ منصوبے سے تاحال چين کو خارج رکھا گيا ہے ليکن پيسيفک فورم کے ديگر گيارہ ممالک کو شامل کيا گيا ہے، جن ميں جاپان، کينيڈا، آسٹريليا، اور ميکسيکو بھی ہيں۔ چينی سرکاری ميڈيا سميت چند مبصرين يہ تنقيد کرتے ہيں کہ ٹرانس پيسيفک پارٹنرشپ يا (TTP) کا مقصد چين کی اقتصادی ترقی کو محدود کرنا ہے تاہم واشنگٹن حکومت ايسے الزامات کو رد کرتی ہے۔

ايشيا پيسيفک کے اکيس ممالک کا يہ سالانہ اجلاس کئی سربراہان مملکت کو دوطرفہ ملاقاتوں کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ روز علاقائی روايتی حريف ممالک چين اور جاپان کے رہنماؤں کی بھی ملاقات ہوئی۔ چينی صدر شی جن پنگ اور جاپانی وزير اعظم شينزو آبے کی ملاقات کو مثبت پيش رفت سے تعبير کيا جا رہا ہے۔

اسی طرح پير کی شب امريکی صدر باراک اوباما اور روسی صدر ولاديمير پوٹن کے درميان بھی ايک مختصر ملاقات ہوئی تاہم اطلاعات کے مطابق اس ملاقات ميں دونوں صدور نے کسی تنازعے يا بالخصوص يوکرائنی تنازعے کے حوالے سے کوئی بات نہيں کی۔ روسی و امريکی اہلکاروں نے اس غير رسمی ملاقات کی تصديق کر دی ہے۔ دونوں رہنما اسی ہفتے آسٹريليا کے شہر برسبين ميں ہونے والے جی ٹوئنٹی کے اجلاس ميں بھی شرکت کريں گے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے يہ کہا جا چکا ہے کہ اوباما اور پوٹن کی سرکاری سطح پر دو طرفہ ملاقات نہيں ہو گی تاہم دونوں ليڈر غير رسمی انداز ميں گفتگو کر سکتے ہيں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں