پاپوا نیو گنی میں ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن کا سربراہی اجلاس آج بروز اتوار ختم ہو چکا ہے۔ تاہم امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ کی وجہ سے ايپک سمٹ کے سربراہان کسی مشترکہ اعلامیے پر اتفاق میں ناکام رہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاپوا نیو گنی کے وزیراعظم پیٹر او نائل نے آج اتوار کے روز ہونے والی اختتامی پریس کانفرنس میں امریکا اور چین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا، ’’آپ کو معلوم ہے یہاں کون سی دو بڑی طاقتیں موجود ہیں۔‘‘ پیٹر او نائل نے یہ بات ايپک سمٹ کے اختتام پر مشترکہ اعلامیے پر اتفاق نہ ہونے کے تناظر ميں کہی۔
ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن اجلاس کے اختتام پر کوئی حتمی معاہدہ نہ طے پائے جانے کی اہم رکاوٹ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم پاپوا نیو گنی نے عالمی تجارتی تنظیم میں اصلاحات کی ضرورت کا ذکر کیا۔ ان کے مطابق، ’’ايپک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے درمیان کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ لہٰذا یہ مسائل عالمی تجارتی تنظیم کے فورم پر اٹھائے جاسکتے ہیں۔‘‘
واضح رہے ایشیا پیسیفک خطے کے رہنماؤں کے سالانہ اجلاس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کی روایت سن 1993 سے قائم ہے۔ تاہم یہ پہلا موقع ہے جب ايپک سمٹ کے اختتام پر کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہو سکا۔ وزیراعظم پیٹر او نائل نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ بطور میزبان اپنا بیان جلد جاری کریں گے۔
پیسیفک خطے پر امریکا اور چین کی جانب سے اقتصادی اثر و رسوخ بڑھانےکی کوششيں جاری ہيں۔ مثال کے طور پر اپیک سمٹ کے دوران مغربی اتحادی ممالک نے چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کے جواب میں پاپوا نیو گنی میں بجلی اور انٹرنیٹ منصوبوں پر 1.7 بلین امریکی ڈالر کی مشترکہ سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ دوسری جانب جنوبی پیسیفک میں ایک سو ستر جزیروں پر مشتمل ملک ٹونگا نے چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے میں شرکت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
پاپوا نیو گنی کے دارالحکومت پورٹ مورسبی سے واپسی سے قبل امریکی نائب صدر مائیک پینس نے بھی چین کے ساتھ اختلافات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیسیفک میں چین کی جانب سے بڑھتی ہوئی تجارتی سرگرمیوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ پاپوا نیو گنی کے وزیر خارجہ نے روئٹرز کو مزید بتایا کہ ’کثیرالملکی تجارتی نظام‘ پر عدم اتفاق مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکنے کی اہم وجہ تھی۔
ع آ / ع س (روئٹرز)
یورپ اور امریکا کے تجارتی تعلقات
یورپی یونین اور امریکا ایک دوسرے کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹیں رہی ہیں۔ ڈالتے ہیں ایک نظر ان دونوں خطوں کے درمیان درآمدات و برآمدات پر اور جانتے ہیں وہ کون سی انڈسٹری ہیں جو تجارتی جنگ سے متاثر ہوں گی۔
تصویر: Imago/Hoch Zwei Stock/Angerer
ٹریلین یورو سے زائد کی تجارت
یورپی یونین، امریکا کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے جہاں امریکا کی مجموعی برآمدات کا پانچواں حصہ اپنی کھپت دیکھتا ہے۔ اسی طرح یورپی برآمدات کا پانچواں حصہ امریکی مارکیٹ کا حصہ بنتا ہے۔ سال 2017ء میں دونوں خطوں کے درمیان ساز وسامان اور سروس کی مد میں 1,069.3 بلین یورو کی تجارت ہوئی۔ یورپ نے امریکا سے 256.2 بلین یورو کا سامان درآمد کیا اور 375.8 بلین یورو کا تجارتی مال برآمد کیا۔
تصویر: Imago/Hoch Zwei Stock/Angerer
تجارتی سرپلس
یورپ اور امریکا کے درمیان زیادہ تر مشینری، گاڑیوں، کیمیکلز اور تیار کیے گئے ساز و سامان کی درآمد و برآمد ہوتی ہے۔ ان تینوں کیٹگریوں کے علاوہ کھانے پینے کی تجارت سے یورپ کو تجارت میں بچت یا سرپلس ملتا ہے۔ جبکہ امریکا کو توانائی اور خام مال کی تجارت پر سرپلس حاصل ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters
چوٹی کی برآمدات ، گاڑیاں اور مشینری
یورپ امریکا کو گاڑیوں اور مشینری کی مد میں سب سے بڑی برآمد کرتا ہے جس کا حجم 167 بلین یورو ہے
تصویر: picture-alliance/U. Baumgarten
محاصل میں اضافہ
اس برس مئی کے اختتام پر ٹرمپ انتظامیہ نے یورپ کے لیے اسٹیل پر 25 فیصد اور المونیم پر 10 فیصد محصولات عائد کر دی ہیں۔ امریکا کو سن 2017ء میں 3.58 بلین یورو اسٹیل اور ایلمونیئم کی برآمد کی گئی۔
تصویر: Reuters/Y. Herman
جوابی محاصل
امریکا کی جانب سے محصولات میں اضافہ عائد کرنے کے بعد یورپ کی جانب سے ان مصنوعات کی فہرست مرتب کی گئی ہے جس پر جوابی محصولات عائد کیے گیے ہیں۔ ان میں بعض روایتی امریکی مصنوعات ہیں مثلاﹰ پینٹ بٹر، بربن وہسکی، ہارلی ڈیوڈسن موٹرسائکل، جینز اور نارنگی کے جوس ۔ یورپ نے جن برآمدات کو ٹارگٹ کیا ہے ان سے امریکا کو سالانہ 2.8 بلین ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔
تصویر: Shaun Dunphy / CC BY-SA 2.0
سفری اور تعلیمی سروس
خدمات یا سروس کی مد میں یورپ درآمدات کی مد میں 219.3 بلین یورو اور برآمدات کی مد میں 218 بلین یورو کی تجارت کرتا ہے۔ ان میں پروفیشنل اور مینجمنٹ سروسز، سفر اور تعلیم سرفہرست ہیں۔