1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیکس میں چھوٹ اور رعايتیں تنقید کی زد میں

عبدالستار، اسلام آباد
24 جون 2020

پی ٹی آئی کی حکومت ان دنوں مختلف وجوہات کی بناء پر تنقید کی زد میں ہے۔ اب ناقدین اس بات پر چراغ پا ہیں کہ وزير اعظم نے انکم ٹیکس اور رعایات کی صورت ميں صنعتوں کو اربوں روپے کی چھوٹ دی ہے۔

Imran Khan Pakistan Premierminister
تصویر: picture-alliance/AA/Iranian Presidency

ایف بی آر کی طرف سے انکم ٹیکس چھوٹ اور رعایات پر پہلی تفصیلی رپورٹ، جو منگل کو منظر عام پر آئی، کے مطابق مالی سال سن 2020 میں کاروبار اور صنعتوں کو انکم ٹیکس اور رعایات کی مد میں ایک سو چالیس ارب روپے کی چھوٹ دی گئی۔ يہ مجموعی طور پر دی جانی والی چھوٹ اور رعایات کا سینتیس فیصد ہے۔ مجموعی طور پر تین سو اٹھتتر ارب روپے کی چھوٹ اور رعایات دی گئيں۔ فيڈرل بورڈ آف ريونيو پہلے ہی اپنے ٹیکس کے اہداف پورے نہیں کر پایا اور ايک ایسے وقت میں جب ملک کو مالی وسائل کی شدید ضرورت ہے، ان رعایات کو کئی حلقوں ميں ہدف تنقید بنايا جا رہا ہے۔

ٹیکس اور مالیاتی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ امراء اور با اثر افراد کو چھوٹ یا ریاعتیں دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''میڈیا میں صرف ٹیکس کو جمع کرنے پر بحث ہوتی ہے لیکن ان رعایات کا ذکر نہیں کیا جاتا، جو ایسے افراد کو دی جاتی ہيں، جن کے بڑے بنگلے، گولف کلبز، ریسٹ ہاوسز اور دوسرے کاروبار ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے وجود میں آنے سے لے کر اب تک ٹیکس میں دو اعشاریہ بارہ کھرب روپے کی چھوٹ دی ہے، جو ایم ایل ون ریلوے لائن کی مین لائن بنانے کے ليے کافی ہے، جس کی لاگت ایک اعشاریہ ایک کھرب روپے یا سات اعشاریہ دو بلین ڈالر ہے۔ اسی دوران کورونا کی وبا آ گئی اور حکومت نے امراء کو کہا کہ وہ چندے دیں اور ٹیکس پر چھوٹ حاصل کریں۔ اس عمل سے صوبوں کا حصہ کم ہو جائے گا، جس سے ان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔‘‘

تصویر: Imago

معروف اقتصادی ماہر ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کا کہنا ہے کہ جن طاقتوں کو ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے وہی ملک کو بھی چلا رہی ہیں۔ ''سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ٹیکس چھوٹ دی ہی کیوں جاتی ہے؟ پہلے ہمارا زر مبادلہ مشینوں کی امپورٹ پر چلا جاتا ہے اور پھر جو یہ مشینیں امپورٹ کر کے مال بناتے ہیں، ہم ان کو انکم ٹیکس اور دوسری مد میں چھوٹ دے دیتے ہیں اور مشینوں پر ڈیوٹی نہ لگا کر بھی ہم اپنا نقصان کرتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود کفالت پیدا کریں۔ ''بجائے اس کے کہ حکومت یہ چھوٹ دے، حکومت خود یہ کام کیوں نہیں کر سکتی۔ مشینیوں کی درآمد پر چھوٹ دی جاتی ہے، اس کے باوجود ہماری صنعتی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ مشینیں خود بنائیں اور نجی سرمائے کو نوازنے کی بجائے حکومت خود کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں میں حصہ لے کر کرڑوں کی تعداد میں جو افرادی قوت ہمارے پاس موجود ہے، اس کو استعمال کرے اور عوام کو فائدہ پہنچائے۔‘‘

تصویر: BEHRAM BALOCH/AFP/Getty Images

تاہم کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ایف بی آر کو صرف ٹیکس کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ اس ادارے کو حکومتی پالیسی پر عمل درآمد کرنا بھی ہوتا ہے۔ سابق ممبر پالیسی ایف بی آر ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا ہے کہ تمام حکومتیں ٹیکس میں چھوٹ اور رعایتیں دیتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''پہلی بات یہ ہے کہ حکومت نے رعایتوں کی تفصیل پیش کی ہے، جو پہلے اس طرح پیش نہیں کی جاتی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسی ہوتی ہے اور وہ بین الاقوامی معاہدے بھی کرتی ہے، جس میں کئی وعدے کيے جاتے ہیں۔ تو اگر گرین انرجی یا کسی اور شعبے میں حکومت ترقی چاہتی ہے، تو اسے رعایات اور ٹیکس میں چھوٹ دینی پڑے گی تاکہ وہاں سرمایہ آ سکے اور کسی بھی کاروبار کے ابتدائی برسوں میں منافع نہیں آتا۔ اس ليے آپ کو یہ رعایات یا چھوٹ دینی پڑتی ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں