1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اُردن میں خواتین: حقیقی ترقی سماجی اداروں کے ذریعے

25 جون 2022

اُردن میں 2030 ء تک صنفی امتیاز ختم کرنے کاہدف طے کیا گیا ہے۔ اس ٹارگٹ تک پہنچنے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے اُردن کے سماجی ادارے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

Jordanien Wadi Rum | Beduinische Frauen kreieren Taschen
تصویر: Sandra Jelly

عرب ملک اُردن نے 2030 ء تک معاشرے سے صنفی امتیاز کو ختم کرنے کا عزم کیا ہے تاہم یہاں ابھی ملک گیر ترقی باقی ہے۔ دریں اثناء سماجی کاروبار میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ 'سوشل انٹر پرونیور‘ معاشرے میں ترقی اور خواتین کو با اختیار بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

 دنیا کے ہر ملک میں کم و بیش حقوق انسانی، صنفی مساوات، بچوں کے حقوق وغیرہ سے متعلق قوانین کاغذ پر تو موجود ہیں لیکن ان پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے اور یہ معاشرے کے مختلف طبقوں کو کس حد تک ان کے درج شدہ حقوق دلوانے میں کامیاب ہیں اس کا اندازہ متعلقہ ممالک کی مجموعی معاشرتی صورتحال سے ہوتا ہے۔

عرب ریاست اُردن کا بھی کچھ ایسا ہی حال رہا ہے۔ اگر اس ملک میں عوامی زندگی وہاں پائی جانے والی کاغذی سیاسی حکمت عملیوں کے تھوڑا سا بھی قریب ہوتی تو اُردنی خواتین کو مساوی تنخواہ، مرد مزدوروں کے برابر حقوق اور لیبر مارکیٹ میں ان کا مردوں کے برابر انضمام، یہ سب کچھ حقیقی معنوں میں موجود ہوتا۔

اُردن کی بادشاہت نے گرچہ 2015 ء میں یہ وعدہ کیا تھا کہ 2030 ء تک وہ معاشرے سے صنفی امتیاز کو ختم کر دے گی۔ تاہم ' دلی ہنوز دور است‘۔

خطے میں اُردن وہ ملک ہے جہاں یونیورسٹیوں سے ڈگری لے کر فارغ التحصیل ہونے والی خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود مشرق وسطیٰ کے خطے میں ارُدن کی خواتین کی ' ورک فورس‘ یا افرادی قوت میں سب سے کم شرکت ہے۔ 2021 ء کے ورلڈ اکنامک فورم کے جینڈر گیپ انڈیکس میں شامل 156 ممالک میں اُردن 131 ویں نمبر پر ہے۔انسانی حقوق کی کارکن سعودی شہزادی بسمہ تین برس بعد جیل سے رہا

اس سال تاہم ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ اُردن میں ' جینڈر گیپ‘ یا صنفی فرق ختم کرنے کی بالآخر کوشش کی جا رہی ہے اور اس عمل میں  'سوشل انٹر پرونیور‘ یا ادارے مرکزی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

 سست رو ترقی

سیاسی سطح پر دیکھا جائے تو اُردن میں خواتین کم از کم قوانین و ضوابط سے متعلق کاغذ پر زیادہ نظر آنے لگی ہیں۔ فروری میں پہلی بار اُردن کے آئین میں لفظ 'خواتین‘ کا اضافہ کیا گیا۔ اب تک صرف 'اُردنیوں‘ کی اصطلاح آئین میں درج تھی۔

اُردن کی ملکہ رانیاتصویر: Royal Hashemite Court/Royal Press Europe/picture alliance

اُردن کا آئین اب خواتین کے حقوق اور معاشرے میں ان کے مقام کے بارے میں کہتا ہے،''ریاست خواتین کو با اختیار بنانے، معاشرے کی تعمیر میں موثر کردار ادا کرنے کے لیے خواتین کی ممکنہ معاونت کرنے، یکساں مواقع فراہم کرنے اور خواتین کو ہر طرح کے تشدد اور امتیازی سلوک سے محفوظ رکھنے، انہیں تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔‘‘

سیاسی جماعتوں میں خواتین کی شمولیت

مارچ کے مہینے میں سیاسی پارٹیوں سے متعلق قوانین کو اپ ڈیٹ کیا گیا۔ اس تبدیلی کے  مطابق سیاسی پارٹیوں کے بانی اراکین میں کم از کم 10 فیصد خواتین ہونی چاہییں اور اراکین کا اتنا ہی تناسب یعنی دس فیصد  18 تا 35 برس کی درمیانی عمر کے افراد پر مشتمل ہونا چاہیے۔ مزید برآں تین سال کے اندر اندر اس شرح کو 20 فیصد تک بڑھا دیا جائے۔

اُردن میں 2020 ء میں'جینڈر اکوالیٹی اینڈ ڈیسنٹ ورک‘ یعنی 'صنفی مساوات اور باعزت کام‘ کے عنوان سے  شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے شریک مصنفین میں سے ایک مجد اسلیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وہ اُردن کی خواتین کے لیے صنفی مساوات کی آئندہ ترجیحات میں ' تشدد اور ایذا رسانی کے خاتمے کے ساتھ ایک صاف ستھرا ماحول، تنخواہوں میں مساوات اور زچگی کے دوران انہیں تحفظ فراہم کرنے‘  جیسے معاملات یقینی بنانا دیکھ رہی ہیں۔

تاہم 'عرب بیرومیٹر‘ کی مارچ 2021ء کے تازہ ترین سروے کے مطابق اُردن کے معاشرے میں خواتین کی زندگیوں کے موجودہ مسائل کو مزید خراب اور سنگین بنانے میں کورونا وبا کا مرکزی کردار ہے۔

سعودی عرب ميں ہتھيار چلانے کی خاتون ٹرينر اولمپک ميں حصہ لينے کی خواہشمند

سماجی اداروں سے وابستہ اُمیدیں

عرب بادشاہت اُردن میں  'سوشل انٹرپرونیور‘ یا سماجی اداروں سے معاشرتی ترقی کیساتھ ساتھ خواتین کو با اختیار بنانے کے ضمن میں بہت مثبت توقعات پائی جاتی ہیں۔ ایسے اداروں میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنے کا رجحان خواتین کے مستقبل کی سمت یا دھارا موڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ملکہ رانیا مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کرنے والی اُردنی خواتین کیساتھتصویر: Royal Hashemite Court/Royal Press Europe/picture alliance

تقریباً 14 سال قبل اُردن کی صحرائی وادی ' رُم‘ منتقل ہونے والی سانڈرا جیلی نے خواتین کو با اختیار بنانے کا بیڑا اُٹھایا اور اب وہ  Lumeyo کے برانڈ نیم سے  ' بدو آرٹ اینڈ کرافٹ‘ کا ایک ڈیزائننگ بزنس چلا رہی ہیں جس کا مقصد خالصتاً  اردن کے صحرائی علاقے کی خواتین کو روزگار فراہم کر کے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا اور انہیں معاشی اور ماشرتی طور پر با اختیار بنانا ہے۔

ان کے اس ڈیزائن سوشل اینٹر پرائز سے وابستہ 35 اُردنی خواتین دھاگوں کی ری سائیکلنگ کا کام کرتی ہیں، دھاگے بُننے کا کام کرتی ہیں، قالین اور گاؤ تکیے وغیرہ بنتی ہیں۔

اس کے علاوہ ہینڈ بیگ اور کشیدہ کاری سے بنی دیگر اشیاء بھی تیار کرتی ہیں۔ سانڈرا جیلی کا کہنا ہے کہ وہ ان اُردنی خواتین ہُنر مندوں کی بنائی ہوئی اشیاء کی بین الاقوامی مانگ میں اضافہ چاہتی ہیں اس کے لیے انہوں نے دیہی علاقوں کی مقامی خواتین کو گھر سے کام کر سکنے کے قابل بناتی ہیں تاکہ یہ خواتین اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے میں مدد کر سکیں۔

ک م/ ش ح) جینیفر ہولیز(  

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں