اِدھر پاکستانی مریض پریشان، اُدھر بھارتی ہسپتالوں کو نقصان
9 مئی 2017بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ تھے لیکن حالیہ واقعات بالخصوص کنٹرول لائن پر دو بھارتی فوجیوں کے مبینہ قتل اور بھارتی بحریہ کے ایک سابق افسر کو پاکستان میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کا خمیازہ ان بے قصور پاکستانی مریضوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے، جو بھارت کے ہسپتالوں میں علاج کروا رہے ہیں یا علاج کے لئے جانے والے تھے۔
گوکہ بھارتی وزارت خارجہ نے پاکستانی مریضوں کو ویزے نہ جاری کرنے کے حوالے سے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا لیکن گزشتہ تقریباً دو ماہ سے پاکستانیوں کو میڈیکل ویزے جاری کیے جانے کا سلسلہ بند ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں پاکستانی مریضوں کے لئے سخت پریشانی پیدا ہوگئی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق بھارت کے اس رویے کے خلاف اسلام آباد نے پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر کے اپنی ناراضی کا بھی اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ جدید طبی سہولیات اور سستے علاج کی وجہ سے مختلف ممالک سے افراد علاج کے لئے بھارت آتے ہیں۔ ان میں پاکستانیوں کی بھی کافی بڑی تعداد ہوتی ہے کیوں ان کے لئے یورپ یا امریکا جا کر علاج کرانا مشکل ہوتا ہے۔
پاکستانی اس لیے بھی علاج کے لیے بھارت جانا پسند کرتے ہیں کیوں کہ وہاں انہیں زبان کا مسئلہ بھی پیش نہیں آتا اور حلال کھانے پینے جیسے دیگر مسائل کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے علاوہ پاکستان سے علاج کے لئے آنے والے بچوں کو خصوصی مالی امداد بھی دی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان سے ہر ماہ پانچ سو سے زیادہ مریض بالخصوص جگر اور قلب کی بیماریوں کے علاج کے لئے بھارت جاتے ہیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق مودی حکومت اب پاکستانی شہریوں کو تجارتی اور مذہبی سفر کے لئے دیے جانے والے ویزوں پر بھی نظر ثانی کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
تاہم پاکستانیوں کو میڈیکل ویزا روک دینے کے فیصلے سے بھارت کے نجی ہسپتال بھی خوش نہیں ہیں لیکن وہ کھل کر اس کا اظہار کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ دہلی کے مشہور اندر پرستھ اپولو اسپتال کے ایک اہلکار نے نام راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے ہسپتال میں پاکستان سے جہاں پہلے ہر ماہ تیس سے چالیس مریض علاج کے لئے آتے تھے، اب یہ تعداد تقریباً صفر رہ گئی ہے۔ مذکورہ اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ وہ حکومت کی طرف سے کسی طرح کی کارروائی میں پھنسنے سے بچنے کے لئے پاکستانی مریضوں کی کچھ بھی مدد کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
ایک دوسرے ہسپتال میکس ہیلتھ کیئر کے اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن میڈیکل ویزا جاری نہیں کر رہا۔ پاکستان سے مریض مدد کے لئے ہمیں فون کر رہے ہیں لیکن ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا کوئی بھی عمل سرکاری پالیسی میں مداخلت سمجھا جائے، ’’حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں خود بھی نہیں معلوم کہ ہم پاکستانی مریضوں کی کیسے مدد کریں۔‘‘
دریں اثناء بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا اثر صرف میڈیکل ویزے تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس کا اثر اسپورٹس پر بھی پڑ رہا ہے۔ کرکٹ تو پہلے سے ہی متاثر ہے لیکن اب بھارت نے اگلے ہفتے دہلی میں ہونے والے ایشیائی کُشتی چمپئن شپ میں شرکت کرنے والی پاکستانی ٹیم کو ویزا دینے سے انکار کر دیا ہے۔
بھارتی وزیر برائے اسپورٹس وجے گوئل کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’بھارت سرکار نے دونوں ملکوں کے اسپورٹس تعلقات کو فی الحال روک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دہشت گردی اور کھیل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘