نازی جرمن اذیتی کیمپ ’آؤشوٹس‘ میں قید پولش لڑکی کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر کو برازیلین فنکار مرینا آماریل نے رنگین بنایا ہے۔ ڈھائی لاکھ سے زائد ٹوئٹرصارفین اس نئی رنگین تصویر پراپنی آرا کا اظہار کررہے ہیں۔
اشتہار
گزشتہ ہفتے بارہ مارچ کو جرمنی میں آؤشوٹس میموریل میوزیم کی جانب سے نازی جرمن دور کے ایک اذیتی کیمپ میں قید پولش لڑکی کی پرانی تصویر کو رنگین بنا کر سماجی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا تھا۔ چودہ سالہ 'شیسواوا کووکا' کی تصاویر دراصل سن 1942 دسمبر میں آؤشوٹس کیمپ میں رجسٹریشن کے دوران بنائی گئی تھیں۔ برازیلین فنکار مرینہ اماریل نے ان تصاویر میں نئے رنگ بھر کے ہزاروں یہودیوں کے قتل عام سے متعلق ماضی کی تلخ یادوں کو ایک مرتبہ پھر تازہ کر دیا ہے۔
مزید یہ کہ سوشل میڈیا صارفین نے ان تصویروں کو دس ہزار سے زائد مرتبہ شیئر کیاگیا ہے۔ آؤشوٹس میموریل میوزیم کی جانب سے ایک پیغام میں کہا گیا، "ماضی کو یاد رکھنے کی کاوش میں مدد کا شکریہ" ایک ٹوئیٹ کے جواب میں کہا گیا "ہمیں تلخ تاریخ سے سبق حاصل کرکے مستقبل کو بہتر اور محفوظ بنانا ہے۔"
ملک بدری اور قتل
آؤشوٹس میوزیم کا کہنا ہے کہ یہودی نہ ہونے کے باوجود بھی جرمن حکام نے پولینڈ سے تعلق رکھنے والی چودہ سالہ 'کووکا' کو ان کی والدہ کے ہمراہ جنوب مشرقی پولینڈ کے علاقے زاموجش سے آؤشوٹس کیمپ میں منتقل کیا گیا تھا۔ کووکا کے ہمراہ ایک اور آؤشوٹس قیدی ولہیلم براسے کی گواہی کے مطابق رجسٹریشن کے دوران سیکیورٹی گارڈ نے 'کووکا' پر شدید تشدد کیا۔ اس بات کا اندازہ تصویر میں کووکا کے کٹے ہونٹوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ تین ماہ بعد چودہ سالہ 'شیسواوا کووکا' کی والدہ آؤشوٹس کیمپ میں انتقال کر گئی تھی جبکہ شیسوا وا کو زہریلے انجیکشن کے ذریعے قتل کردیا گیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمن حکومت نے دس لاکھ سے زائد لوگوں کا قتل عام کیا تھا جن میں زیادہ تر افراد کا تعلق یہودی عقیدے سے تھا۔
پرانی تصاویر میں رنگ سازی کا شوق
برازیلین فنکار مرینہ اماریل نے اہم تاریخی واقعات اور شخصیات کی پرانی تصویروں کو دوبارہ نئے رنگوں کے ساتھ تخلیق کرتی ہیں۔ پولش لڑکی کووکا کی تصاویر بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔ اماریل کو یقین ہے کہ ان کا فن لوگوں میں تاریخی واقعات و شخصیات کے حوالے سے دلچسپی کو اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ دیگر تصویروں میں امریکی صدر ابراہم لنکن، برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور معروف فزسسٹ البرٹ آئنسٹائن شامل ہیں۔
وارسا میں یہودی بستی کی نازی جرمنی کے خلاف بغاوت
سات عشرے قبل یعنی اپریل 1943ء میں وارسا کے یہودیوں نے نازی فوج کا چار ہفتے تک ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا
تصویر: ddp images/AP Photo
مقبوضہ آبادی کی تلاشی
وارسا پر قابض سابق نازی جرمن فوج کی خفیہ سروس کے مسلح عہدیدار مقامی آبادی کی تلاشی لیتے ہوئے، 19 اپریل کو یہاں کے یہودیوں نے بغاوت کا آغاز کر دیا تھا
تصویر: Getty Images
یہودی بستی پر قبضہ
نازی جرمنی نے 1939ء کے وسط میں پولینڈ پر قبضہ کیا تھا، پولینڈ کے دارالحکومت میں اس وقت قریب ساڑھے تین لاکھ یہودی بستے تھے، جو کسی بھی یورپی شہر میں یہودیوں کی سب سے بڑی تعداد تھی
تصویر: picture-alliance/dpa
معمولات زندگی میں یکسر تبدیلی
یہ سڑک دکھاتی ہے کہ مقبوضہ یہودی بستی ’گیٹو‘ میں معمولات زندگی کس قدر پرسکون تھے، اکتوبر 1940ء میں شہر کی یہودی آبادی کو ہر جگہ سے بے دخل کرکے ایک علاقے میں مقید کر دیا گیا تھا اور ان کے اردگرد تین میٹر اونچی دیوار تعمیر کر دی گئی تھی
تصویر: picture-alliance/dpa
مقبوضہ یہودی علاقوں کو ملانے والا پل
اس تصویر میں مقبوضہ یہودی علاقوں کو ملانے والا پل دیکھا جاسکتا ہے جس کے ذریعے دیگر علاقوں تک رسائی ناممکن تھی، یہاں کے لوگوں سے کھیتوں،کارخانوں یا فوج میں جبری محنت کروائی جاتی تھی
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن قوانین کا نفاذ
مقبوضہ یہودی بستی کے اندر جرمن انتظامی فورس Ordnungsdienst کے عہدیدار انتظامی امور چلاتے تھے۔ بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے یہاں کے یہودیوں کو Judenrat سے رابطہ کرنا پڑتا تھا جو جرمن قوانین کے نفاذ کو یقینی بناتے تھے
تصویر: picture-alliance/akg-images
ناگفتہ حالات زندگی
وارسا کے مقبوضہ یہودی علاقے میں حالات زندگی ویسے ہی ناگفتہ تھے۔ ایسے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سابق نازی فوج نے دیگر مقبوضہ علاقوں سے بھی یہودیوں کو یہاں لانا شروع کر دیا اور یہاں کی آبادی ایک وقت میں چار لاکھ تک پہنچ گئی تھی
تصویر: picture-alliance/dpa
سخت حالات میں مزاحمتی گروہوں کی تشکیل
مقبوضہ یہودی بستی ’گیٹو‘ کے اندر بچوں، خواتین اور بیمار افراد کی حالت دن بہ دن ابتر ہوتی رہی، اگرچہ یہاں کھانے پینے اور ادویات کی شدید قلت تھی تاہم پھر بھی یہودی مزاحمتی گروہ تشکیل پائے
تصویر: picture-alliance/dpa
گیٹو سے قتل گاہوں میں منتقلی
وارسا کے ’گیٹو‘ سے یہودیوں کی ’extermination camps‘ یعنی قتل گاہوں کو منتقلی شروع ہوئی، زیادہ تر لوگوں کو ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر قائم Treblinka کیمپ منتقل کیا گیا، نازی فوج کے انتظامی افسر اور Judenrat کے سربراہ ,Adam Czerniakow نے اس عمل کے دوران بطور احتجاج خودکشی کرلی تھی
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Austrian Archives
جرمن فوج پر فائرنگ
اپریل 1942 میں وارسا گیٹو کو بڑی حد تک خالی کر دیا گیا تھا اور بچ جانے والے یہودی رہائشیوں کو اذیتی مراکز میں منتقل کر دیا گیا تھا جس کے معنی موت کے تھے۔ جب خفیہ فوج SS کے عہدیدار 19 اپریل کو کیمپ میں داخل ہوئی تو یہودی مزاحمت کاروں نے ان پر فائرنگ کی
تصویر: Keystone/Getty Images
بستی کے گھر نذر آتش
جنرل یورگن سٹروپ (بائیں جانب سے تیسرے) کی قیادت میں نازی جرمن فوج SS کو چار ہفتے تک یہودی مزاحمت کاروں کے حملوں کا سامنا رہا، سابقہ نازی فوج نے اپنا کنٹرول یقینی بنانے کے لیے ’گیٹو‘ کے اندر ایک ایک کرکے تمام عمارتوں کو نذر آتش کر دیا
تصویر: picture-alliance/Judaica-Sammlung Richter
مزاحمت دم توڑ گئی
مئی کی 16 تاریخ کو مزاحمت دم توڑ گئی، وارسا کے ’گیٹو‘ میں قریب دس لاکھ لوگوں کو قابض رکھا گیا تھا اور رپورٹوں کے مطابق ان میں سے کچھ ہزار ہی زندہ بچے
تصویر: picture-alliance/dpa
یہودیوں کا نام ونشان مٹانے کی کوشش
وارسا میں یہودیوں کا نام ونشان مٹانے کی غرض سے سابق نازی فوج نے یہاں یہودیوں کی عبادت گاہ کو بھی نذر آتش کر دیا تھا۔ نازی فوج SS کی رپورٹ کے مطابق وارسا میں یہودیوں کی تعداد 56065 تھی۔
تصویر: ullstein bild - Photo12
کچھ ہی لوگ بچ سکے
مزاحمت کو پسپا کر دیا گیا اور ’گیٹو‘ سے لگ بھگ 56 ہزار لوگوں کو بے دخل کر دیا گیا، ان بچ جانے والے افراد کو جبری مشقتی کیمپوں میں بھیج دیا گیا اور محض کچھ ہی کو بعد میں بچایا گیا
تصویر: picture-alliance/AP Images
مظالم کی معافی مانگ لی گئی
سابق جرمن چانسلر ولی برانڈ کی یہ تصویر 1970ء میں دنیا بھر نے دیکھی جب انہوں نے وارسا کے دورے کے وقت ’گیٹو کے ہیروز کی یادگار‘ پر بطور احترام و عقیدت گھٹنے ٹیکے۔، دنیا نے اسے دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمن فوج کی جانب سے کیے گئے مظالم کی معافی سے تعبیر کیا