1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئینی ترامیم کی جنگ، اگلے مرحلے کی تیاری؟

20 ستمبر 2024

پاکستان میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے معاملے پر شروع ہونے والا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ان دونوں فریقوں کا حتمی ٹکراؤ ملک کے لیے بہت منفی اثرات کا حامل ہوگا۔

Supreme Court of Pakistan in Islamabad
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

تجزیہ کاروں کے مطابق اسٹیبلیشمنٹ اور اس کی حمایت یافتہ حکومت نے مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے اپنا پورا زور لگا دیا تھا لیکن اس کے باوجود مولانا فضل الرحمان کی طرف سے حمایت نہ ملنے پر انہیں شدید شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اور یہ کہ اس ناکامی کے باوجود بظاہر اب اس لڑائی کے اگلے مرحلے کی تیاری جاری ہے۔

پاکستان  کے ایک سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی کے مطابق، ''اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آئینی ترامیم کا معاملہ ختم ہو گیا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے کیونکہ اب نہیں تو پھر مزید چند دن بعد یہ فیصلے ہو کر رہیں گے۔ یہ معاملہ 'ڈمپ‘ نہیں ہوا صرف موخر ہوا ہے۔‘‘

پاکستان میں کئی مبصرین کا خیال ہے کہ عدلیہ کا کنٹرول فوج کی حمایت یافتہ حکومت کو درپیش کسی بھی چیلنج کو دور کرنے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔ بظاہر جو ترامیم تجویز کی گئی ہیں ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان سے عدلیہ مکمل طور پر ایگزیکٹو کے ماتحت ہو جائے گی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اسٹیبلیشمنٹ اور اس کی حمایت یافتہ حکومت نے مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے اپنا پورا زور لگا دیا تھا لیکن اس کے باوجود مولانا فضل الرحمان کی طرف سے حمایت نہ ملنے پر انہیں شدید شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔تصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

مبصرین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ موجودہ حکومت کو پارلیمان میں تین چوتھائی ارکان کی حمایت ملے تاکہ وہاں اپنی مرضی کی ترامیم کرانے کی راہ ہموار ہو سکے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے نے حکمران اتحاد کی آئینی ترامیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت ختم کر دی تھی۔

مخصوص نشستوں کے لیے اسپیکر کا الیکشن کمیشن کو خط

ایک نئی سیاسی پیش رفت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نام ایک خط لکھ کر کہا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں اس لیے ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ کے تحت خصوصی نشستیں دے دی جائیں۔ ان کے بقول انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم کیے بغیر مخصوص نشستیں ( پی ٹی آئی کو) کیسے دی جا سکتی ہیں۔ اس تازہ صورتحال میں اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوتا اور پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں ملتیں تو پھر ان آئینی ترامیم کے لیے حکومت کو مولانا فضل الرحمان کی حمایت کے حصول کی محتاجی نہیں رہے گی۔

وکلاء کا احتجاجی سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان

دوسری طرف لاہورمیں پاکستان بھر سے آئے ہوئے وکلا کے نمائندوں  نے آئینی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے اپنی احتجاجی سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، اور مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کا بطور چیف جسٹس آف پاکستان نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے۔

سینئر تجزیہ کار سلمان غنی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آئینی ترامیم کا معاملہ عمران خان کے دور حکومت سے چلا آ رہا ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

 سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے کئی مہینوں سے جاری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے محاذ آرائی اب فیصلہ کن مرحلے کے قریب پہنچتی دکھائی دے رہی ہے: ''ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کا اتحاد عدلیہ کے کچھ فیصلوں کو ایک سیاسی جماعت کے حق میں سمجھتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہ فیصلے ان کے راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اس لیے وہ (اسٹیبلشمنٹ اور حکومت) عدلیہ کو آئین اور قانون تک محدود رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

سینئر تجزیہ کار سلمان غنی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آئینی ترامیم کا معاملہ عمران خان کے دور حکومت سے چلا آ رہا ہے، لیکن موجودہ حکومت نے بغیر تیاری اور سنجیدگی کے جس طرح اسے ڈیل کیا ہے اس سے مسلم لیگ ن کی حکومت بری طرح ایکسپوز ہو گئی ہے: ''اس لیے اب فیصلہ سازوں نے یہ معاملہ شہباز شریف سے لے کر بلاول بھٹو کو دے دیا ہے جس کے بڑے دورس نتائج ہو سکتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول پاکستان کے ڈپٹی پرائم منسٹر کا یہ کہنا کہ آئینی ترامیم کا ڈرافٹ انہوں نے بھی نہیں دیکھا تھا بہت معنی خیز بات ہے۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ جب تک سارے ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں نہیں آ جاتے پاکستان اسی طرح مسائل میں گھرا رہے گا: ''اس بحران کا حل صرف یہی ہے کہ ادارے سیاست میں مداخلت چھوڑ دیں اور اپنے آئینی اور قانونی رول پر اکتفا کر لیں۔‘‘

یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی طرف سے رواں برس مارچ میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک لکھا گیا خط عدلیہ کو درپیش چیلنجز کا واضح اظہار ہے، جس میں عدالتی معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور ججوں کو ہراساں کرنے کے خلاف شکایت کی گئی تھی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں