پاکستان میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے معاملے پر شروع ہونے والا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ان دونوں فریقوں کا حتمی ٹکراؤ ملک کے لیے بہت منفی اثرات کا حامل ہوگا۔
اشتہار
تجزیہ کاروں کے مطابق اسٹیبلیشمنٹ اور اس کی حمایت یافتہ حکومت نے مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے اپنا پورا زور لگا دیا تھا لیکن اس کے باوجود مولانا فضل الرحمان کی طرف سے حمایت نہ ملنے پر انہیں شدید شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اور یہ کہ اس ناکامی کے باوجود بظاہر اب اس لڑائی کے اگلے مرحلے کی تیاری جاری ہے۔
پاکستان کے ایک سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی کے مطابق، ''اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آئینی ترامیم کا معاملہ ختم ہو گیا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے کیونکہ اب نہیں تو پھر مزید چند دن بعد یہ فیصلے ہو کر رہیں گے۔ یہ معاملہ 'ڈمپ‘ نہیں ہوا صرف موخر ہوا ہے۔‘‘
پاکستان میں کئی مبصرین کا خیال ہے کہ عدلیہ کا کنٹرول فوج کی حمایت یافتہ حکومت کو درپیش کسی بھی چیلنج کو دور کرنے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔ بظاہر جو ترامیم تجویز کی گئی ہیں ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان سے عدلیہ مکمل طور پر ایگزیکٹو کے ماتحت ہو جائے گی۔
مبصرین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ موجودہ حکومت کو پارلیمان میں تین چوتھائی ارکان کی حمایت ملے تاکہ وہاں اپنی مرضی کی ترامیم کرانے کی راہ ہموار ہو سکے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے نے حکمران اتحاد کی آئینی ترامیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت ختم کر دی تھی۔
مخصوص نشستوں کے لیے اسپیکر کا الیکشن کمیشن کو خط
ایک نئی سیاسی پیش رفت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نام ایک خط لکھ کر کہا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں اس لیے ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ کے تحت خصوصی نشستیں دے دی جائیں۔ ان کے بقول انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم کیے بغیر مخصوص نشستیں ( پی ٹی آئی کو) کیسے دی جا سکتی ہیں۔ اس تازہ صورتحال میں اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوتا اور پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں ملتیں تو پھر ان آئینی ترامیم کے لیے حکومت کو مولانا فضل الرحمان کی حمایت کے حصول کی محتاجی نہیں رہے گی۔
اشتہار
وکلاء کا احتجاجی سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان
دوسری طرف لاہورمیں پاکستان بھر سے آئے ہوئے وکلا کے نمائندوں نے آئینی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے اپنی احتجاجی سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، اور مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کا بطور چیف جسٹس آف پاکستان نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے۔
سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے کئی مہینوں سے جاری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے محاذ آرائی اب فیصلہ کن مرحلے کے قریب پہنچتی دکھائی دے رہی ہے: ''ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کا اتحاد عدلیہ کے کچھ فیصلوں کو ایک سیاسی جماعت کے حق میں سمجھتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہ فیصلے ان کے راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اس لیے وہ (اسٹیبلشمنٹ اور حکومت) عدلیہ کو آئین اور قانون تک محدود رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
سینئر تجزیہ کار سلمان غنی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آئینی ترامیم کا معاملہ عمران خان کے دور حکومت سے چلا آ رہا ہے، لیکن موجودہ حکومت نے بغیر تیاری اور سنجیدگی کے جس طرح اسے ڈیل کیا ہے اس سے مسلم لیگ ن کی حکومت بری طرح ایکسپوز ہو گئی ہے: ''اس لیے اب فیصلہ سازوں نے یہ معاملہ شہباز شریف سے لے کر بلاول بھٹو کو دے دیا ہے جس کے بڑے دورس نتائج ہو سکتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول پاکستان کے ڈپٹی پرائم منسٹر کا یہ کہنا کہ آئینی ترامیم کا ڈرافٹ انہوں نے بھی نہیں دیکھا تھا بہت معنی خیز بات ہے۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ جب تک سارے ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں نہیں آ جاتے پاکستان اسی طرح مسائل میں گھرا رہے گا: ''اس بحران کا حل صرف یہی ہے کہ ادارے سیاست میں مداخلت چھوڑ دیں اور اپنے آئینی اور قانونی رول پر اکتفا کر لیں۔‘‘
یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی طرف سے رواں برس مارچ میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک لکھا گیا خط عدلیہ کو درپیش چیلنجز کا واضح اظہار ہے، جس میں عدالتی معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور ججوں کو ہراساں کرنے کے خلاف شکایت کی گئی تھی۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔