1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئیے کچھ دیر کے لیے سری لنکا کا چشمہ لگائیں!

DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
سعدیہ مظہر
19 جولائی 2022

سن دو ہزار سترہ میں سرکاری سکولوں کو بسیں فراہم کرنے کی ایک تقریب تھی۔ سرکاری سکول میں سب اچھا دیکھانے کے لیے فوراﹰ ایک باتھ روم کو اپ ڈیٹ کیا گیا اور بچیوں کو خاص طور پر دھلے ہوئے نئے یونیفارم پہننے کی تلقین کی گئی۔

تصویر: privat

یہ نواز شریف حکومت کا دور تھا۔ مریم نواز تشریف لائیں تو بچیوں کو قطار میں کھڑا کر کے پھولوں کی پتیاں نچھاور کروائی گئیں۔ وہ بچیاں، جن کے پاس نا نئے جوتے تھے، نا کپڑے اور نا ہی امیر باپ کا نام۔ اتنی جلدی سکول کی دیواروں سے سفیدی نہیں اُتری تھی، جتنی جلدی ان پرانی بسوں پر کیا گیا پینٹ دھلا اور بسیں بے کار ہو گئیں۔ تب تو مریم نواز صاحبہ صرف ان 'فنڈز کی رکھوالی‘ کر رہی تھیں، جو مشیل اوبامہ کی جانب سے بچیوں کی تعلیم کے لیے دیے گئے تھے۔

سری لنکن صدر راجا پاکسے کی خاندانی سیاست کا شاندار عروج اور اب زوال کو دیکھ کر نا جانے کیوں ماضی کے کچھ اوراق میرے سامنے آنے لگے اور یہ خدشات بھی کہ کہیں ہمارا بھی یہی حال نہ ہو۔ ارے بس یہی تین گھنٹے تین منٹ  کی فلائٹ کی دوری ہی پر تو ہے سری لنکا ہم سے۔ پھر ہمیں اضطراب اور بے چینی نظر کیوں نہیں آ رہی؟

ہم بھی تو صدیوں سے کشکول لیے گھوم رہے ہیں۔ کبھی مغرب، کبھی شمال اور کبھی جنوب۔ مغرب بھی وہ، جس کے رہن سہن پر ہمیشہ ہم نے استغفار ہی کیا مگر ان سے مانگنے پر نہیں۔ ہم سوچتے کیوں نہیں کہ اس قرض نے کبھی کسی ملک کو امیر نہیں بنایا۔ بچپن سے اس عمر تک یہی سنتے آئے کہ ''ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔‘‘ لیکن اس ''نازک دور‘‘ کے باوجود حکمران امیر ہوتے گئے، مضبوط ہوتے گئے اور مغرور تو پہلے روز سے ہی تھے۔

لیکن اب سری لنکا والا چشمہ پہنیے ذرا! جی جی یہی والا، کچھ نظر آیا؟ کیا کہا؟ غریب ہیں ہر طرف، بھاگ رہے ہیں لوگ؟ پھٹے ہوئے کپڑے پہنے ہیں؟ دکانیں لوٹ رہے ہیں؟ محلات کی طرف جا رہے ہیں سب؟ کیا دیکھا دوبارہ بتائیے! اوہ، گورنر ہاؤس میں چلے گئے سب؟ خوف ناک منظر ہے لیکن سری لنکا میں حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔

ہم نے سنا ہے گھر پر برا وقت آئے تو سب گھر والے یک جان ہو کر مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ مگر وہ، جو گھر والے ہوتے ہیں۔ کبھی سنا ہے کہ گھر والوں کو پتہ نا ہو کہ گھر میں کچن کہاں ہے اور ڈرائنگ روم کہاں؟

سوال یہ ہے کہ کیا یہ محلات نما گھروں میں پلے بڑھے سیاست دانوں کے بچے پاکستان کے محنت کشوں کی تکالیف کا ذرا برابر بھی اندازہ لگا سکتے ہیں؟  اقتدار باپ سے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بیٹی وغیرہ کو ہی منتقل کرنا کس ملک کے  آئین کا حصہ ہے؟ 

پاکستان میں عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد، جس بیانیے نے سب سے زیادہ زور پکڑا، وہ ایک دوسرے کو غدار قرار دینے کا بیانیہ تھا اور ہے بھی۔ تو ذرا سوچیے! خدانخواستہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے تو کیا ہو گا؟

قومی خزانے سے بجٹ خسارے تک ہمیشہ سابقہ حکومتیں ہی ذمہ دار ٹھہرتی ہیں۔ کبھی کسی حکومت نے اپنی نااہلی کو قبول کیا؟

کیا ہمارے حکمران بھی راجا پاکسے ہی ہیں، جو سب سے پہلے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کریں گے اور مغربی ممالک میں سیاسی پناہ چاہیں گے؟ یا ہمارے پاس ایسے حکمران ہیں، جو اپنی جیبیں، جائیدادیں اور ایک ایک روپیہ ملک کے خزانے میں ڈالیں گے؟ یہ ملک سب سے زیادہ غریب کا ہے کیونکہ آندھی آئے، طوفان، سیلاب یا قحط غریب اپنی زمین چھوڑ کر کہیں نہیں جاتے۔

ذرا آنکھیں بند کیجیے اور تصور کیجیے کہ پاکستان سے سب سے پہلا طیارہ کس کا اُڑے گا؟ کون ملک کی بقاء پر اپنی جان کو فوقیت دے گا؟ ہم کتنے تہی داماں ہیں کہ پچھہتر سال گزرنے کے بعد بھی اپنے لیے مخلص حکمران نہیں ڈھونڈ پائے؟ یہ حکمرانی نسل در نسل چلتی رہی اور ہماری خود کے لیے طے کی گئی غلامی ہماری ہی نسلوں کو منتقل ہو گئی۔ اس بارے میں ذرا سوچیے تو سہی!

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں