آئی ایم ایف کا قرضہ، کتنی ضرورت کتنی مجبوری
27 جون 2013ایک ایسے وقت میں جب اس حکومت کو پرانے قرضوں کی قسط ادا کرنا ہے، اس کے زر مبادلہ کے ذخائر تشویشناک حد تک کم ہو کر ساڑھے چھ ارب ڈالر کی سطح تک گر چکے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اس زر مبادلہ سے صرف اگلے چند مہینوں کی ضروریات ہی بہ مشکل پوری ہو سکیں گی۔ ایسی صورت حال میں کشکول توڑنے کے دعووں کے ساتھ برسر اقتدار آنے والی نئی پاکستانی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ جمعے کے روز تقریبا پانچ ارب ڈالر کے قرضے کے لیے مذاکرات کرنے جا رہی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز ماہر اقتصادیات اسد عمر نے بتایا کہ ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے بچنے کے لیے پاکستان کے تیزی سے گرتے ہوئے زر مبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا دینے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول زر مبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنانے کے لیے درآمدات میں کمی، برآمدات میں اضافہ، نئی سرمایہ کاری یا قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان چارآپشنز میں سے حکومت آئی ایم ایف سے نئے قرضے کے حصول والے آپشن کے لیے توکوشش کر رہی ہے لیکن دوسرے امور کے حوالے سے اس کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے،خاص طور پر حالیہ بجٹ میں امیروں پر ٹیکس لگانے کے بجائے پہلے سے ٹیکس دینے والے مڈل کلاس طبقے پر براہ راست ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیاہے اورمعاشی اصلاحات کے لیے موثر اقدامات بھی نہیں کیے گئے ہیں۔
غیر منافع بخش منصوبے
ایک سوال کے جواب میں اسد عمر نے بتایا کہ نجی شعبہ قرضے لینے سے پہلے دیکھتا ہے کہ وہ یہ قرضہ کس قیمت پر لے رہا ہے، اس سے وہ کتنی کمائی کرسکے گا تاکہ وہ نفع کمانے کے ساتھ ساتھ اس قرضے کو وقت پر واپس بھی کر سکے، لیکن حکومتیں مہنگے قرضے لیکر انہیں سیاسی مفادات کے لیے غیر منافع بخش منصوبوں میں لگا دیتی ہیں جس سے عوام پر بوجھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ان کے بقول مسلم لیگ نون بھی پنجاب میں ایسے منصوبے چلاتی رہی ہے جن کا اکنامک ریٹ آف ریٹرن زیادہ نہیں تھا۔
پاکستان کے ایک اور ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اکمل حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملکی معیشت کو آگے لےجانے کے لیے محض آئی ایم ایف کے قرضوں کا حصول ہی کافی نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی انحطاط پذیر معیشت کو بدحالی سے نکالنے کے لیے پانی ، بجلی اور گیس کی کمیابی کوترقیاتی بجٹ کی مدد سے دور کر کے ہائی گروتھ کی طرف جانا ہوگا، اور جی ڈی پی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ ان کے بقول اگر شرح سود کم کرنے، اور مالیاتی خسارے میں کمی کے لیے ترقیاتی بجٹ محدود کرنے کا آئی ایم ایف کا مطالبہ مان لیا گیا توپھر مذکورہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکیں گے۔
ملکی مفاد
ڈاکٹر اکمل آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے حامی ہیں، اور ملکی مفاد میں آئی ایم ایف کی معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پرکسی حد تک عمل بھی چاہتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو بغیرکسی اختلاف میں الجھے،
سلیقہ مندی سے یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اخراجات کو کنٹرول کرنے کے نام پر اگر ترقیاتی بجٹ میں کمی کی گئی تو اس سے ملکی ترقی کی شرح بری طرح متاثر ہوگی۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن کا کہناتھا کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں ٹیکسوں سے بھاری ریونیو اکٹھا کیے جا سکنے کا پوٹینشل موجود ہے، اگر حکومت اپنا ٹیکس کا نظام درست کر لے اور امیروں سے ٹیکس لے سکے تو آئی ایم ایف کی محتاجی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ان کے بقول آئی ایم ایف کے قرضے سے معاشی مشکلات کے شکار عوام کو مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے پروفیسر آف اکنامکس ڈاکٹر قیس اسلم کو امید ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج مل جائے گا۔ ان کے بقول آئی ایم ایف کا پاکستانیوں کو بچت کرنے کا مشورہ درست ہے لیکن فضول خرچی کی عادی پاکستانی بیوروکریسی ایسا کرنے پر تیار نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کل کے مذاکرات میں پاکستان اور آئی ایم ایف دونوں کا ہی اپنی اپنی پوزیشنوں سے کچھ پیچھے ہٹنے کا امکان ہے۔ پاکستان کو شرح سود میں اضافے کی شرط نہیں ماننی چاہیے کیوں کہ اس کے معیشت پر اثرات بہتر نہیں ہوں گے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: شامل شمس