1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ایم ایف کی نئی شرائط، پاکستان کے لیے مسائل؟

عثمان چیمہ
19 مئی 2025

آئی ایم ایف نے مزید قرض کے حصول کے لیے پاکستان کے سامنے گیارہ نئی شرائط رکھی ہیں، جن میں بجلی اور گیس کے شعبے مٰیں اصلاحات کے لیے قانون سازی بھی شامل ہے۔ اس تناظر میں حکومت تنقید کی زد پر ہے۔

پاکستان میں عام شہری معاشی ہدحالی کی شکار کرتے ہیں
سابقہ انتخابات میں معاشی حالات سب سے اہم موضوع تھےتصویر: Afifa Nasrallah/DW

آئی ایم ایف کی جاری کردہ حالیہ اسٹاف لیول رپورٹ میں پاکستان پر قرض کے حصول کے لیے نئی شرائط عائد کی گئی ہیں۔ نئی شرائط میں پاکستان کو کہا گیا ہے کہ صنعتی پاور پلانٹس کو سبسٹڈی پر گیس کی فراہمی روکی جائے، کراس سبسڈی میں پائے جانے والے تضادات دور کیے جائیں، زرعی ٹیکس کی وصولی یقینی بنائی جائے اور تین سال سے پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی جائے، حالیہ پالیسی کے تحت صرف تین سال پرانی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت تھی۔

مزید یہ کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے حکومت سے کہا ہے کہ ایسی قانون سازی کو یقینی بنایا جائے جس سے قرض ادائیگی سرچارج کی فی یونٹ زیادہ سے زیادہ حد تین روپے اکیس پیسے ختم کی جا سکے تا کہ آنے والے دنوں میں بجلی کے شعبے میں ہونے والے نقصانات کو یہ سرچارج بڑھا کر پورا کیا جا سکے۔

پاکستان نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی صورتحال کو قدرے بہتر بنایا ہےتصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance

آئی ایم ایف نے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ پاکستان خصوصی ٹیکنالوجی زونز اور دیگر صنعتی پارکس و زونز سے متعلق تمام مراعات کو دو ہزار پینتیس تک مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کرے۔ یہ رپورٹ سال کے آخر تک تیار کرنا ہوگی۔

کچھ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ باعثِ شرمندگی ہے کہ ملک اس نہج پر پہنچ گیا ہے, جہاں بین الاقوامی مالیاتی ادارے اب معیشت کی مائیکرو مینجمنٹ کر رہے ہیں، جو دراصل خود ملک کی ذمہ داری ہے۔

بعض ماہرین آئی ایم ایف کے تجویز کردہ اقدامات کو درست قرار دیتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے مستقبل میں ملکی معیشت اور عام لوگوں کو فائدہ ہو گا۔

معروف ماہرِ معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں، ’’یہ توہین آمیز ہے، یہ مائیکرو مینجمنٹ ہے، ہمیں اپنی معیشت خود چلانے کے قابل ہونا چاہیے۔‘‘

 ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ آئی ایم ایف کی حالیہ شرائط کا مقصد پاکستان کو ہمیشہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر انحصار کرنے والا ملک بنانا ہے۔ پاکستان نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر کافی حد تک قابو پا لیا تھا، لیکن استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر شرائط میں نرمی سے مزید گاڑیاں درآمد ہوں گی، جس سے زرمبادلہ کا نقصان ہوگا اور پاکستان کو دوبارہ قرضوں کے لیے بھاگنا پڑے گا۔‘‘

پاکستانی شہری مہنگائی کی شکایت بدستور کرتے نظر آتے ہیںتصویر: ASIF HASSAN/AFP

ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی اب ہمیں آئی ایم ایف بتائے گا کہاسپیشل صنعتی زونز ہونا چاہیں یا نہیں، اس کا تعلق تو ملکی پالیسی سے ہے۔

کیا آئی ایم ایف کی حالیہ شرائط نئی ہیں؟

بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت سات ارب ڈالر کی منظوری دی تھی، جسے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس منظور شدہ رقم میں سے پاکستان کو اب تک تقریباً 2.1 ارب ڈالر کی دو قسطیں موصول ہو چکی ہیں۔ بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ شرائط نئی نہیں بلکہ ہر چھ ماہ بعد قسط جاری ہونے سے قبل ہونے والے جائزے کا حصہ ہیں۔ پاکستان کو آئندہ قسط رواں سال اکتوبر یا نومبر میں ملنے کی توقع ہے اور آئی ایم ایف نے اس سے پہلے کچھ اقدامات لینے کی ہدایت دی ہے۔

معروف ماہر معیشت اور عوامی پالیسی کے ماہر خاقان حسن نجیب کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط نہ تو نئی ہیں اور نہ ہی انہیں مکمل طور پر منفی کہا جا سکتا ہے بلکہ پاکستان کو پائیدار معیشت اور ترقی کے لیے کچھ اقدامات لینا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا، ''مجھے امید ہے کہ حکومت صوبوں سے بات کرے گی اور وہ زرعی ٹیکس کی وصولی شروع کریں گے، جو پائیدار معیشت کے لیے ضروری ہے۔‘‘

 استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی شرائط میں نرمی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس سے عام آدمی کو مناسب قیمت پر گاڑی خریدنے کا موقع ملے گا اور مقامی انڈسٹری کے لیے مسابقت بڑھے گی، جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔

پاکستانی انتخابات: ووٹ، توانائی اور آئی ایم ایف

14:06

This browser does not support the video element.

کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگرچہ آئی ایم ایف نے ملک میں زرعی ٹیکس نافذ کرنے کی شرط رکھی ہے، لیکن حکومت شاید اسے عملی جامہ نہ پہنا سکے کیونکہ زراعت اب ایک صوبائی معاملہ ہے، اور وفاق و صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان اس شرط کی ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو ایف بی آر کی نااہلیاں آئی ایم ایف کی جانب سے سخت شرائط کا باعث بنتی ہیں۔

تجزیہ کار محمد احسن ملک کا کہنا ہے کہ ایف بی آر ہر بار حکومت اور آئی ایم ایف کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے اسے اپنے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف اب کہتا ہے کہ ہمیں نہ بتاؤ کہ آپ ٹیکس نیٹ بڑھا رہے ہو، بلکہ عملی اقدامات دکھاؤ، کیونکہ یہ قرض لینے کے لیے ضروری ہیں۔ جہاں تک زرعی ٹیکس کا تعلق ہے، ان کا کہنا ہے کہ اسے نافذ کرنا وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، جو مستقبل میں پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں