1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی اے رحمان چلے گئے، مگر ان کا جلایا ہوا دیا جلتا رہے گا

13 اپریل 2021

انگریزی کی ایک کہاوت کا ترجمہ ہے، ‘‘تمام انسان برابر پیدا ہوتے ہیں۔’’ اسی طرح ایک اور انگریزی کہاوت کا اردو میں مطلب ہے، ‘‘موت انسانوں میں مساوات پیدا کر دینے والی ایک عظیم حقیقت ہے۔‘‘

Ibn Abdur Rehman
تصویر: Peter Roggenthin/dpa/picture alliance

مراد یہ ہے کہ اپنی پیدایش کے وقت اور اپنی موت کے بعد تمام انسان ایک سی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ فرق صرف اس بات سے پڑتا ہے کہ کس نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟ پیدائش اور موت کے درمیانی وقفے ہی کا نام زندگی ہے، جو بہت بھرپور بھی گزاری جا سکتی ہے۔ لیکن بھرپور زندگی گزارنا ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا۔ جن کے حصے میں آتا ہے، وہ اپنی ‘واپسی' سے پہلے بہت کچھ کر جاتے ہیں۔

ایسے انسان اپنے سے زیادہ دوسروں کے لیے کچھ کرتے ہوئے جیتے ہیں اور اسی لیے ان کی موت اس دنیا سے صرف انہی کا ‘انتقال' نہیں ہوتا بلکہ ان کی رخصتی کے ساتھ ہی بہت سے خواب، بہت سی امیدیں، بہت سی توانائیاں اور بہت سی قربانیاں بھی رخت سفر باندھ لیتی ہیں۔ آئی اے رحمان (ابنِ عبدالرحمان) بھی ایسی ہی ایک نادر و نایاب شخصیت تھے۔ ان کی رحلت ان کے اہل خانہ کے لیے ایک عظیم نقصان تو ہے ہی، ان کا ‘جانا' پاکستان کے لیے بھی بہت بڑا خسارہ ہے۔

عصمت جبیں، بلاگرتصویر: Privat

آئی اے رحمان ایک ایسے انسان، ایک ایسے صحافی، اور انسانی حقوق کے لیے جہد مسلسل کرنے والی ایک ایسی شخصیت تھے، جن کے جانے سے ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا اور ایک پُر نا ہونے والا خلا اپنی وسعتوں سمیت سب کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ رحمان صاحب کی ذات کے بڑا ہونے کا تعلق صرف ان کی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد سے نہیں تھا۔ ان کی بڑائی انسانی وقار پر ہمہ وقت اصرار اور اپنے ارد گرد کی تاریکیوں سے مایوس ہو جانے سے مسلسل انکار میں تھی۔ ان کا بنیادی پیغام انسانی حقوق اور انسانی وقار کی عالمگیریت تھی۔

خاص و عام کے مابین سماجی تناؤ میں ان کا جھکاؤ ہمیشہ ذلتوں کے مارے ہوئے لوگوں اور محروم طبقات کی جانب تھا۔ وہ کوئی شاعر ادیب نہیں تھے، مگر اداس نسلوں کے ترجمان تھے۔ ابنِ عبدالرحمان منافقوں اور ان کی منافقتوں کو چیلنج کرتے تھے۔ وہ مراعات یافتہ حکمران طبقات کی کبھی طاقت اور کبھی مذہب کے نام پر قائم کردہ خود ساختہ حاکمیت کو للکارتے تھے۔ معاشرے میں خاص و عام کی اسی تعریف و تفریق کے مٹائے جانے پر اصرار کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ عوامی ثقافت لوگوں کے اعمال کا آئینہ ہوتی ہے، ان کے عقايد کا عکس نہیں۔ عوامی زبان میں اس سے مراد یہ کہ حاکمیت حقوق کی ہوتی ہے، مراعات کی نہیں۔ حقوق برابر ہوتے ہیں، کسی جابر یا آمر کی مرضی کے مطابق کم یا زیادہ نہیں۔

پاکستانی تاریخ کے گزشتہ تین چار عشروں میں آئی اے رحمان ان صرف تین شخصیات میں گنے جا سکتے ہیں، جنہوں نے اپنے عہد پر اپنی جدوجہد سے واضح اثرات چھوڑے۔ ان میں سے ایک بے نظیر بھٹو تھیں، جو انسانی حقوق کی سیاسی لڑائی کی علمبردار تھیں، دوسری عاصمہ جہانگیر جو انہی حقوق کے لیے قانونی جنگ لڑتی تھیں اور تیسرے آئی اے رحمان جو سیاسی اور قانونی لڑائی کو انسانی حقوق کے پیرائے میں دیکھتے ہوئے ان کے بارے میں اسی پہلو سے سرگرم رہتے تھے۔

پاکستان کی یہ تینوں عوامی شخصیات جسمانی طور پر اب اس دنیا میں نہیں، مگر ان کی جدوجہد ان کے افکار و خیالات کی شکل میں جاری ہے۔ بے نظیر بھٹو، عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان اپنے پیچھے جو خلا چھوڑ گيے، وہ پُر نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ جہاں انسانوں کا قحط پڑنا شروع ہو جائے، وہاں دوسروں کے لیے انتھک محنت اور جہد مسلسل کرنے والے بڑے انسان ناپید ہو جاتے ہیں۔

رحمان صاحب نے اپنے لیے جس جدوجہد کا دانستہ انتخاب کیا، وہ انہوں نے نصف صدی سے بھی زائد عرصے اور اپنی آخری سانسوں تک جاری رکھی۔ وہ صحافی ایسے تھے کہ ان کے قلم سے لکھے جانے والے الفاظ ہر پیشہ ور ایماندار صحافی کے ضمیر کی آواز بن جاتے۔ ان کا لکھا ہوا سچ ایسا ہوتا کہ جھوٹ کے سامنے ڈٹ جاتا۔ وہ انسانی حقوق کے انتھک کارکن ایسے تھے کہ پاکستان میں اپنے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایت کرنے والے کسی بھی مذہب یا نسل کے ہر متاثرہ شہری کو ان کی ذات میں اپنا ذاتی محافظ نظر آتا۔

آئی اے رحمان بس ایک انسان، ایک صحافی اور انسانی حقوق کے ایک کارکن ہی نہیں تھے وہ کئی حوالوں سے اپنی ذات میں بیک وقت کئی مختلف ادارے تھے، ان کی پھیلائی ہوئی روشنی خود پر اندھیروں کو کبھی غالب نہیں ہونے دے گی۔ ہوا کیسی بھی ہو، ان کا جلایا ہوا دیا جلتا ہی رہے گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں