1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹلانٹک خطے میں ’زمین کی نبض‘ رکتی ہوئی

عاطف توقیر
11 اگست 2021

ایک تازہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹروپیکل حدت کو قطب شمالی کے پانیوں کی جانب لے جانے والی لہریں کم زور پڑتی جا رہی ہیں۔

Grönland I  Atlantic Meridional Overturning Circulation (AMOC)
تصویر: Isabela Le Bras/AP/picture alliance

اگر زمین کی نبض ہوتی، تو یقینا 'اٹلانٹک میریڈیونل اوورٹرننگ سرکولیشن‘ یا AMOC کو وہ نبض کہا جاتا۔ ایک تازہ تحقیقی رپورٹ میں تاہم بتایا گیا ہے کہ ٹروپیکل خطے کی حدت کو قطب شمالی تک پہنچانے والی یہ فطری لہریں تیزی سے کم زور ہوتی جا رہی ہیں اور ممکن ہے جلد ہی دم توڑ دیں۔

گلیشیئر کی برف میں بھاری دھاتوں کی غیر معمولی مقدار کی موجودگی

قطب شمالی کی وہیل: جسامت چھوٹی ہونے کے خطرے سے دوچار

برلن کی فری یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنسدان نیکلاس بیورس کی یہ تحقیقی رپورٹ اے ایم او سی کے حوالے سے ان مطالعاتی رپورٹوں کو مزید تقویت فراہم کر رہی ہے، جن میں کہا جا رہا ہے کہ سیارہ زمین کو زندگی کے لیے سازگار ماحول کے لیے معاونت فراہم کرتی یہ لہریں اپنے خاتمے کے بالکل قریب ہیں۔

نیکلاس بیورس کی یہ تحقیقی رپورٹ نیچر کلائمٹ چینج جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ تاہم اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دو حالتوں میں یہ لہریں قدرے مستحکم بھی ہیں۔

عرف عام میں گلف سٹریمز یا خلیجی لہریں کہلانے والی ان نہایت اہم لہروں سے متعلق سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ پچھلے سولہ سو برسوں میں اس وقت اپنی سست ترین حالت میں ہیں۔ تازہ جائزوں میں کہا جا رہا ہے کہ ممکن ہے کہ جلد ہی مکمل طور پر رک جائیں۔

سائنس دانوں کے مطابق اگر یہ لہریں ٹھہر گئیں تو اس کا اثر اربوں انسانوں پر پڑے گا کیوں کہ ان کے ذریعے دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں بارشوں کا نظام متاثر ہو گا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس تبدیلی کی وجہ سے جنوبی امریکا، مغربی افریقہ اور بھارت تک کے خطے متاثر ہوں گے، جہاں طوفانوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا، دوسری جانب یورپ میں درجہ حرارت میں کمی واقع ہو گی۔

سائنسدانوں کے مطابق اے ایم او سی نظام کی پیچیدگی اور عالمی حدت کے مستقبل کے حوالے سے غیریقینی کی صورتحال میں یہ بتایا ناممکن ہے کہ کب یہ نظام ختم ہو جائے گا۔جرمن سائنس دان نیکلاس بیورس کے مطابق، ''اس نظام کے عدم استحکام سے متعلق اشارے میرے تصور سے بھی زیادہ واضح اور خوف زدہ کر دینے والے ہیں۔‘‘

فی الحال یہ معلوم نہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کس شرح پر یہ نظام مکمل طور پر رک جائے گا۔ بیورس کہتے ہیں، ''یہی کہا جا سکتا ہے کہ ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو تمام ممکنہ حد تک کم درجے پر رکھا جائے۔ کرہء ہوائی میں پھینکی جانے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ہر گرام غیرمعمولی شدت کے اثرات پیدا کر رہا ہے۔‘‘

ان لہروں سے متعدد خطوں میں بارشوں کا نظام جڑا ہےتصویر: NOAA/NESDIS/STAR GOES/AP/picture alliance

خلیجی لہریں کیا ہیں؟

بحرالکاہل میں حرارتی لہروں کا جنوب سے شمال کی جانب بہاؤ جس کے تحت اٹلانٹک کی اوپری سطح سے نمکین پانی شمال کی جانب بڑھتا ہے، جب کہ نچلی سطح سے ٹھنڈا پانی جنوب کی طرف جاتا ہے۔

گرین لینڈ میں پگھلتی برف قطبی چوہوں کے لیے خطرہ

04:10

This browser does not support the video element.

جنوبی کرہ اور ٹروپیکل خطوں سے اس نظام کے تحت حرارت شمال کی جانب جاتی ہے، جب کہ کرہ ہوائی میں ٹمپریچر گریڈینٹ کی وجہ سے یہ حدت ختم ہو جاتی ہے اور یہ پانی کثیف اور ٹھنڈا ہو کر اوپری سطح سے نچلی سطح پر چلا جاتا ہے۔

اسی طرح اسی نظام کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ٹروپیکل علاقوں سے گرم آبی بخارات اڑتے ہیں اور شمال کی جانب بڑھتے ہیں، جہاں یہ کم درجہ حرارت کی وجہ سے کثیف شکل اختیار کرتے ہیں۔

یہ عمل نہ صرف حدت کو مختلف سمندروں اور کرہ ہوائی میں تقسیم کرتا ہے بلکہ ساتھ ہی مختلف معدنیات اور نامیاتی مواد کو سمندری پانیوں میں شامل کرنے کا باعث بنتا ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں