اٹلی آنے والے تارکین وطن کی تعداد آج بھی دو برس پہلے جتنی
شمشیر حیدر3 جولائی 2016
اطالوی حکام کا کہنا ہے کہ اس سال بھی بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد پچھلے برسوں جتنی ہی ہے۔ اس سے قبل خیال یہ تھا کہ ترکی اور یورپ کے مابین معاہدے کے بعد زیادہ تارکین وطن اٹلی کا رخ کر رہے ہیں۔
اشتہار
اطالوی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران بحیرہ روم کے سمندری راستے سے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد تقریباﹰ اتنی ہی رہی، جتنی کہ پچھلے دو برسوں کی پہلی ششماہیوں میں بھی رہی تھی۔
روم سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس سال کی پہلی ششماہی کے دوران 70 ہزار 930 تارکین وطن سمندری راستوں سے غیر قانونی طور پر اٹلی پہنچے۔ یہ تعداد 2015ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران اٹلی آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کے تقریباﹰ برابر جب کہ 2014ء کی پہلی ششماہی کی نسبت تھوڑی سی زیادہ ہے۔
2015ء کے پورے سال میں لیبیا اور دیگر افریقی ممالک کے ساحلوں سے بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 53 ہزار رہی تھی۔
بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی بڑی تعداد نے اٹلی پر کافی بوجھ ڈال رکھا ہے۔ اس سال جون کے آخر تک ایک لاکھ 32 ہزار تارکین وطن مہاجرین کے طور پر اٹلی میں اپنی رجسٹریشن کرا چکے تھے۔ پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد کے لیے رہائش اور دیگر سہولیات کا انتظام کرنا اٹلی کے لیے ابھی تک ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
رواں برس مارچ کے مہینے میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک متنازعہ معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت غیر قانونی طور پر ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں بلقان کی ریاستوں نے بھی اپنی قومی سرحدیں بند کر رکھی ہیں، جس کے باعث پناہ گزینوں کے لیے شمالی اور مغربی یورپی ممالک پہنچنے کے زمینی راستے تقریباﹰ مسدود ہو چکے ہیں۔
بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر
01:11
اس صورت حال کے باعث تارکین وطن بحیرہ روم کا نسبتاﹰ طویل اور خطرناک سمندری راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ گزشتہ مہینے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے بتایا تھا کہ صرف مئی کے اواخر میں سات سو سے زائد تارکین وطن بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
اطالوی حکام کے مطابق اٹلی کا رخ کرنے والے زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق افریقی ممالک سے ہے۔ اس سال اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن میں سے 15 فیصد کا تعلق نائجیریا جب کہ 13 فیصد کا تعلق اریٹریا سے ہے۔ علاوہ ازیں گیمبیا، سوڈان، صومالیہ اور دیگر افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد بھی انہی خطرناک سمندری راستوں سے اٹلی پہنچی ہے۔
روم میں ملکی وزارت داخلہ کے مطابق اس سال اٹلی پہنچنے والوں میں نابالغ تارکین وطن کی تعداد میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جنوری سے جون کے درمیان ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد تنہا اور کم عمر تارکین وطن اٹلی پہنچے تھے اور یہ رجحان ابھی تک جاری ہے۔ اس کے برعکس پورے سال 2015ء میں ایسے نابالغ مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد 13 ہزار رہی تھی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔